ہمیشہ جزبے دلوں میں ابھارتے رہنا
سلیقہ سے یہ حجر تم تراشتے رہنا
گمان بد جی میں ہرگز نہ پالتے رہنا
"برا نہ کرنا بھلا سب کا چاہتے رہنا"
نہ بے وفائی برتنا، بھلے مصیبت آئے
سبق وفا کا تصور میں سوچتے رہنا
کبھی ہو گل کا تبسم، کبھی ہو تازہ کلی
مہک فضائے گلستاں میں پھینکتے رہنا
فتور عقل، فساد عقیدہ ہونے نہ دے
رواج زیست کا جوہر سنوارتے رہنا
قدم ہو نفس پہ گر، دوسرا ہو جنت میں
مجاہدہ سے خودی اپنی مارتے رہنا
نہ بن سکے نئی ایجاد کے بجز ناصؔر
کہ تم علوم جدیدہ بھی سیکھتے رہنا

0
32