حرص و طمع کی دوڑ سے اکتا گیا ہے دل
شر و فتن کی آنچ میں جھلسا گیا ہے دل
سوز و گداز ہے کبھی، درماندہ ہے کبھی
"ہنگامہ ء حیات سے گھبرا گیا ہے دل"
آسودگی نشاط عمل بن گئی ہے بس
تزئین کے جنون میں مارا گیا ہے دل
تدبیر کارگر ہو یہی کچھ گماں رہا
پر بے خودی میں اپنا چرایا گیا ہے دل
کھلواڑ آبرو سے ہوئی، گھر ہوا تباہ
مذموم حرکتوں سے ڈرایا گیا ہے دل
عبرت کی داستان ہے تذلیل کا نشاں
سفاکی، جبر و جور سے توڑا گیا ہے دل
سیرت ہی جیت لیتی ہے ناصؔر سبھوں کے من
کردار آفرینی سے بدلا گیا ہے دل

0
27