سپنے حسیں جو اپنے دلوں میں سجا گئے
وہ بالیقین کار نمایاں دکھا گئے
ایمائے انقلاب کے معمول پا گئے
تقدیر کے ستارے وہی جگمگا گئے
زریں اصول فتح و ظفر یابی کے جو ہیں
"میرے دل و دماغ پہ اس درجہ چھا گئے"
یکجہتی کے ہو جزبے، اخوت کا ہو سماں
افکار منفرد یہی من میں سما گئے
چھوڑی ہے پاکدامنی کی اجلی داستاں
پلکوں میں اپنے شرم و حیا جو بسا گئے
افسانے امن و آشتی کے کر گئے رقم
وہ نفرتوں کو حسن عمل سے مٹا گئے
دستور اہل فن کا یہ ناصؔر سدا رہا
وہ جوہر سخن کو یہاں آزما گئے

0
16