سر پہ جب کوئی آشیاں نہ رہا
استعانت کا پھر گماں نہ رہا
پاس زر ہو رفیق ہیں سارے
ناتوانی میں دوستاں نہ رہا
کس پہ اقدام جرم عائد ہو
"دل سا جب دوست مہرباں نہ رہا"
زخم سہنا جری کو ہے زیبا
پر یہاں رستم زماں نہ رہا
ہو گیا راز فاش مژگاں سے
خانہ ء دل میں اب نہاں نہ رہا
بیم و امید پاس ہے لیکن
باعث کرب شادماں نہ رہا
رونقیں حزن سے بڑھتی ہیں ناصؔر
کیا مزہ گر کوئی امتحاں نہ رہا

0
3