ٹھیکروں پر ہمارے ہی پلتے رہے
درد بھی ان سے ہی ہم کو ملتے رہے
ڈگمگائے نہیں امتحاں میں قدم
"راہ الفت میں گرتے سنبھلتے رہے"
سابقہ مشکلوں سے مسلسل پڑا
بن کے پروانہ سر مست جلتے رہے
روڑہ ہرگز ہوا آندھیوں سے نہیں
سوئے منزل بلا خوف چلتے رہے
خیر اندیش، ناقد کو جانا سدا
شعلہ ء طنز میں جل کے ڈھلتے رہے
حرص و آوارگی سے تنفر کیا
راست بازی میں بے حد مچلتے رہے
موج در موج ناصؔر ہوئے دوبدو
بیچ گرداب سے بھی نکلتے رہے

0
23