بہبودئ ملت کا اگر خواب سجا دے
بیداری کی تحریک دل و جاں میں بسا دے
توقیر و بلندی کو مقدر میں سما دے
پھر قوم بھی سر آنکھوں پہ ان سب کو بٹھا دے
سبزہ نمو سنگلاخ زمیں جہد سے ہوتی
"پتھر کی ہتھیلی پہ کوئی پھول اگا دے"
وہ عالم برزخ میں اماں سے ہوں گے بندے
جو اپنے یہاں نفس کو اکثر ہی سزا دے
بیزاری اندھیروں سے رہے چاہے جہاں ہو
ظلمت کو مٹانے کے لئے دیپ جلا دے
تقلید زمانے کی نہ ہو، دیں کی کریں سب
ہم ساروں کو بیہودگی سے شرم و حیا دے
حد درجہ برائی سے ہو گھن سینہ میں ناصؔر
اے مولی تو پاکیزگی ہو ایسی، فضا دے

0
4