سر پہ نیکیوں کا سائباں کر لے
آخرت کے لئے کچھ اماں کر لے
فرض منصبی پر جاں ہو نچھاور
"بندے بندگی کو آسماں کر لے"
ہم صلاح بنیں سارے عدو بھی
نرم گفتگو، شیریں بیاں کر لے
منقطع ہو اگر سب سے تعلق
ہم جلیس کو ہم داستاں کر لے
اضطراب ہو محسوس بے بس کا
درد خواہی میں دل مہرباں کر لے
اپنی درک و بصیرت ہو نمایاں
ہوش مندی سے دشمن گماں کر لے
آشنا رہے حد بندی سے ناصؔر
ہے کہاں جا کے رکنا نشاں کر لے

0
25