بھول ہو جائے گر بتا دیجے
تھوڑی اصلاح بھی کرا دیجے
ہم دل و جاں سے چاہتے ہیں صنم
"ہو سکے تو ہمیں دعا دیجے"
شوخ و گستاخ ہے روش لیکن
حزن دیجے، نہ ہی سزا دیجے
دل کشادہ، مزاج عالی ہو
زیست بھر فرحت و وفا دیجے
منطق گفتگو ہو بامعنی
نغمہ ء پیار تب سنا دیجے
خوگر امن و آشتی ہو گر
نفرتیں بیچ سے ہٹا دیجے
چاہتوں کی نظیر ہو ناصؔر
الفتوں کا چمن بسا دیجے

0
32