اپنی ناکامی سے کیوں بیزار ہے
راہ منزل کی کہاں دشوار ہے
کل جہاں ہی بر سر پیکار ہے
"ہر طرف سے ہم پہ ہی یلغار ہے"
شانہ سے شانہ ملا تو ہے ضرور
سست رو اپنی مگر رفتار ہے
ہوچکی ہے خیر اندیشی فنا
اپنے مطلب آشنا سردار ہے
دندناتے پھرتے مجرم ہیں یہاں
غیر منصف جو بنا دربار ہے
جھوٹ کہتے کہتے سچ لگنے لگا
مکر آمیزی کی بس طومار ہے
ہے سبب رسوائی کا ناصؔر یہی
کھوکھلا تہذیب کا معیار ہے

0
31