شمس ڈھلنے لگے تو ہو جائے سایہ پیچھے
گردش دوراں میں ہو عکس بھی دھندلا پیچھے
کچھ حسیں سپنوں کے باعث ہوئے ثابت ہیں قدم
شکر ہے خوابوں کی دنیا کو بسایا پیچھے
زیست میں آئے کٹھن مرحلے اپنے لیکن
چاہنے والوں سے الفت کو نبھانا پیچھے
دین محنت پہ ہے موقوف اسے مت کھونا
رب کو راضی کرے تو لگتی ہے دنیا پیچھے
دار فانی سے کرے کوچ مگر پائے وہ
نیک اولاد کا جو چھوڑتے ورثہ پیچھے
ہو زمانہ بھی مخالف تو نہ ڈرنا ناصؔر
مالک کون و مکاں کا ہے سہارا پیچھے

0
21