کب تلک صبر کا امتحاں محترم
درد و غم کی بنے کہکشاں محترم
بدنما ہو گیا کیوں جہاں محترم
سوچئے گا ذرا علم خواں محترم
جستجو ہے چمن میں بہاروں کی گر
جہد پیہم سے ہو ضوفشاں محترم
راس آتی نہیں ہے روش جور کی
اپنی پہچاں رہے مہرباں محترم
راہ میں لاکھ طوفاں ہو حائل مگر
سوئے منزل بڑھے کارواں محترم
مسکراؤ غموں کو چھپا کے سدا
رنج میں بھی رہو شادماں محترم
عزم راسخ دلوں میں ہو ناصؔر فقط
ہٹتی پھر ساری دشواریاں محترم

0
3