تعلیم کے طفیل ہی فیضان ہو گئے
تابندہ سوئی قوم کے ارمان ہو گئے
دشوار رہ گزر میں عزائم پرستی تھی
"رستے بہت کٹھن تھے پر آسان ہو گئے"
فردا سے بے خبر ہوگئے جب ہے با خبر
ناقد بھی دیکھ کے انہیں حیران ہو گئے
خدمت ستم رسیدہ کی کروائے مغفرت
بخشش کو پانے دیکھئے سامان ہو گئے
دریا یہ دشت ہو کے، بنے غازی بندے جو
مینار ذوق عزم کی پہچان ہو گئے
جزبے دلوں میں جب رہے احیائے دین کے
تب معرکہ میں صاحب میدان ہو گئے
ملت کے پاسداروں پہ ناصؔر سلام ہو
ہستی مٹا کے قوم پہ قربان ہو گئے

0
30