ہے خنداں یہاں سب کو بیدار کر کے
ہے شاداں عقیدت کا اظہار کر کے
سکوں دل پہ چھایا ہے انوار کر کے
شرف خوب پایا ہے ایثار کر کے
کٹھن ہے بہت اب خطا کی تلافی
"پشیماں ہوئے ہیں وہ انکار کر کے"
کھلی بندشیں ہیں پہل سے ہی اکثر
سلجھتے مسائل ہیں گفتار کر کے
ہوئی ہے ہدایت میں تاخیر لازم
مگر روکنا ہوگا اصرار کر کے
پنپنے نہ پائے تاسف کی مایہ
بڑھائے قدم دل کو سرشار کر کے
کرے فوت مقصد خموشی ہے ناصؔر
ہو حاصل مسلسل پہ تکرار کر کے

0
13