جو بوتے ہم صلہ اس کا جہاں میں پاتے ہیں
لبوں پہ پھر گلہ کاہے کو اپنے لاتے ہیں
یہ اعتماد اثر کا نتیجہ ہے پایا
"سدا ہم آپ کی باتوں میں آئے جاتے ہیں"
کبھی نہ تذکرہ اغیار سے غموں کا رہا
اداس رہ کے ہنسی ہونٹوں پر سجاتے ہیں
پہاڑ حزن کے سینے پہ جس نے جھیلے ہوں
وہی غبار الم کے اٹھنے پہ مسکراتے ہیں
ضیا گری کسی کا مقصد و مناط ہو گر
ستارہ بن کے افق پر وہ جگمگاتے ہیں
بڑھاتے سہرہ کی زینت ہے گل وہی اکثر
جو اہل ذوق کی نظروں میں پھول بھاتے ہیں
ہو رہبری کی جسے آرزو یہاں ناصؔر
متاع زندگی میلان پر لٹاتے ہیں

0
25