ناگفتہ کیفیت میں نبھانا کمال ہے
طوفاں کے چلتے دیپ جلانا کمال ہے
جوش جنوں کو دل میں بسانا کمال ہے
"موج غزل کا رنگ سجانا کمال ہے
اوروں پہ وقف زندگی رہتی ہے پر مزہ
رنجیدگی چھپا کے ہنسانا کمال ہے
زیبیدہ کیوں ہو ترک تعلق بھی یار سے
روٹھے عزیز من کو منانا کمال ہے
مدت چمن کو پھولنے درکار ہے یہاں
اجڑا ہوا دیار بسانا کمال ہے
باد خزاں میں غنچوں کی ہے شوخی بے بہا
طفلاں چمن سے بار اٹھانا کمال ہے
اپنے وقار کو کبھی ناصؔر نہ گرنے دے
اقدار کا زوال بچانا کمال ہے

0
19