دل کو تڑپائے عشق اقتضا ہے
بے قراری کا نام ہی وفا ہے
بازئ زیست پر یہ جاں فدا ہے
مقصد و مدعا جی میں بسا ہے
لطف بزم و رزم کا یہاں پایا
"زندگی کی تو دل نشیں ادا ہے"
خوف و دہشت میں مبتلا ہے کیوں
امتحاں کی ابھی تو ابتدا ہے
چھوٹ جائے جو رہبروں کا ساتھ
عزم، پامردی، آس رہنما ہے
صبر اب ناگزیر ہونے لگا
شیوۂ ظلم و جبر ناروا ہے
پستئ قوم کا ہے غم ناصؔر
کندہ سینے پہ داغ بدنما ہے

0
3