ملی ہم کو جو پستی کم نہیں ہے
رہا خواری پہ بھی ماتم نہیں ہے
شکستہ دل ہے میداں میں بظاہر
"مگر یہ سر ابھی تک خم نہیں ہے"
مداوا زخم کا ممکن ہو کیسے
اثر انگیز جب مرہم نہیں ہے
کٹھن ہیں چند لمحے ہجر کے تب
وصال یار کا موسم نہیں ہے
عبث ہے دعوۂ ایثار و الفت
دلوں میں پنپا گر سنگم نہیں ہے
ادھورے خواب رہ جائیں گے سارے
جتائی کوشش پیہم نہیں ہے
بر آ جائے تمنا دل کی ناصؔر
کہ چشم اپنی ذرا پرنم نہیں ہے

0
25