ہمیں غافل نہ سمجھو احمقوں ہشیار بیٹھے ہیں |
حماقت چھوڑ دو بن کے مگر تیار بیٹھے ہیں |
ستمگر چپ پریشاں حالی میں ناچار بیٹھے ہیں |
"تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں" |
کبھی تھا سائباں سر پر مسرت و شادمانی کا |
حوادث میں گھرے تو گریہ ء سرشار بیٹھے ہیں |
شرافت کا، دیانت کا نہ کچھ ہے پاس بالکل بھی |
دلوں میں حسرت و ارماں لئے بیکار بیٹھے ہیں |
نہ خود شاداب ہو پائے نہ کوئی اور ہو پایا |
طلبگاروں کی راہوں میں بچھائے خار بیٹھے ہیں |
حمیت ہو ذرا بیدار ہر اک فرد ملت میں |
فلک رفعت عمارت کو کئے مسمار بیٹھے ہیں |
جو ناہنجاری تھی ناصؔر وہی موجود ہے اب تک |
کھلی بے زاری کا ہی اپنے کر اظہار بیٹھے ہیں |
معلومات