مقاصد سے پلٹتے جارہے ہیں
ذلیل و خوار ہوتے جارہے ہیں
مسائل میں الجھتے جارہے ہیں
"نئے پہلو نکلتے جارہے ہیں"
رواں ہے کارواں منزل کی جانب
کڑی دشواری سہتے جارہے ہیں
جھنجھوڑا ہے غموں نے دل ہمارا
مصائب میں نکھرتے جارہے ہیں
نبھائیں گے وفا ملت سے ہر دم
فریضہ پورا کرتے جارہے ہیں
سعی پر فتح رہتی ہے معین
جہاں کو درس دیتے جارہے ہیں
تمنا ہے ظفر یابی کی ناصؔر
اسی راہوں پہ چلتے جارہے ہیں

0
18