ابھرنا ہے جہاں میں ہم کو مثل کارواں ہو کر
مصائب جھیلنا ہے خوش دلی سے مہرباں ہو کر
تصور کیا کرے جزبات الفت کا بھلا کوئی
"محبت مسکراتی ہے بہار جاوداں ہو کر"
نہ وقعت اور بچ پائی ہے قدر و منزلت اپنی
ذلیل و خوار ہیں اسباب و زر کے آسماں ہو کر
سکون قلب پانے کاوشیں درکار ہوتی ہیں
رہی حسرت نگاہوں میں بظاہر شادماں ہو کر
تکبر سورماؤں کا ملایا خاک میں کیسے
پلٹ دی بازی ہشیاری سے تم نے ناتواں ہو کر
زبانی دعوے اوجھل ہو گئے سارے فضاؤں میں
مچا کہرام ہر سو بہتریں امن و اماں ہو کر
نہ چھپ سکتا کبھی ناصؔر اثر شیریں بیانی کا
دلوں کو جیتنا ہوگا محبت کی زباں ہو کر

0
26