خوابیدہ جو رہتے ہیں، جگایا نہیں جاتا
بے فکر کو اکثر ہی نوازا نہیں جاتا
تقوی کے بنا قلب نکھارا نہیں جاتا
غفلت سے بھی باطن کو سنوارا نہیں جاتا
کاٹے نہیں کٹتے یہ شب و روز ہمارے
"بن آپ کے اک پل بھی گزارا نہیں جاتا"
ہے جشن بہاراں تو کہیں جشن چراغا‌ں
بے سود کبھی گھر کو سجایا نہیں جاتا
ہو ساغر سرشار میں الفت کی نمائش
بالجبر مگر جام پلایا نہیں جاتا
جو جیتے یہاں قوم کی خاطر وہ امر ہیں
ملت کا جو غم کھائے، بھلایا نہیں جاتا
احساس عمل جاگے تو صد آفریں ناصؔر
جزبات ابھر جائیں، ارادہ نہیں جاتا

0
5