ڈرتے نہ غم کے ہیں کبھی آتش فشاں سے ہم |
رشتوں کو بھی نبھاتے ہیں شور فغاں سے ہم |
خاکی تھے نکلے خلد سے پاداش جرم میں |
"واپس وہیں پہ جائیں گے آئے جہاں سے ہم" |
گلشن میں سج گئی ہے کلی گل کی انجمن |
مدہوش ہو گئے عالم دلبراں سے ہم |
گر وصل یار ہو سکے تو جان جائیں گے |
پوچھیں گے برہمی کا سبب ہم نواں سے ہم |
اپنی بساط بھر سعی کرنا تو فرض تھا |
ہر وقت آشنا رہیں دور زماں سے ہم |
کھانے سے ٹھوکریں ہی یہاں پائے تجربہ |
گرتے ہوئے سنبھلنا ہیں سیکھیں زیاں سے ہم |
منزل فلک سریر ہے ناصؔر عیاں ہوا |
چھوئے مقام عالی مگر آسماں سے ہم |
معلومات