Circle Image

humayun raja

@azadraj

پھر کوئی جستجو نہیں ہوتی
تم سے جو گفتگو نہیں ہوتی
نقش جتنا بھی تجھ سے ملتا ہو
تو کبھی ہو بہو نہیں ہوتی
رنگ کوئی نہیں رہا مجھ میں
اب کوئی آرزو نہیں ہوتی

0
14
عادتیں تو کمال رکھنی ہیں
رنجشیں بھی سنبھال رکھنی ہیں
عشق کے سلسلے میں بھی ہم نے
مشکلیں ہی تو پال رکھنی ہیں
اب تو یہ عہد کر لیا ہم نے
خواہشیں بھی بحال رکھنی ہیں

0
14
مجھے اپنے تخیل میں جگہ کچھ دے کے دیکھو تم
کہ اپنے میرے بندھن کو گرہ کچھ دے کے دیکھو تم
مرے اقرار کو اقرار اپنے سے ملا چھوڑو
مرے اس شوقِ الفت کا صلہ کچھ دے کے دیکھو تم
بدل دوں میں یہ سارے رہنے کے اطوار گر بولو
کسی بھی میری عادت کا گلہ کچھ دے کے دیکھو تم

0
9
لوگو جینے کے لئے بس اک تلاطم چائیے
راستہ بھی مجھ کو تھوڑا ویسے مبہم چائیے
بےسکونی کی وجہ ہے یہ سکونِ زندگی
خواہشوں کا سوگ ہو مجھکو بھی ماتم چائیے
ایسے لگتا ہے مجھے بے ذائقہ ہے زندگی
مجھ کو جینا ہے تو پھر اک سوزِ پیہم چائیے

0
21
تغیر جو لہجے میں آیا ہے تیرے
بتا دے مجھے اب یہ کیا ماجرا ہے
غلط ہوں میں سمجھا یہ میری خطا ہے
سمجھ لوں میں یا پھر کہ تو بے وفا ہے
کہ آتی سمجھ میں نہ تیری ادا ہے
ادھر سے اُدھر مجھکو اک بار کر دے

0
20
تُو جو رکھتا ہے ہنر خوب ستانے والا
ہم بھی رکھتے ہیں جگر سوز کمانے والا
تھا ترا دعوی ترے دل میں اتر آیا ہوں
پھر ترا کیوں ہے یہ انداز زمانے والا
وہ جو سانسوں میں ہے پنہاں کوئی جادو تیرے
کون آئے گا تجھے راز بتانے والا

0
33
جو ستم مجھ پہ روا رکھا ہے
مجھ سے کیا مجھ کو بنا رکھا ہے
آکے دیکھو تو سہی دل کو تم
دل میں کیا تیرے سوا رکھا ہے
کیسی قیمت ہے ادا کی میں نے
مجھ کو جو مجھ سے جدا رکھا ہے

0
22
ہر سمت کھو چکی ہے نظر کچھ نہیں آتا
اب تیری محبت کا اثر کچھ نہیں آتا
پھر تیرا یہ احساس ہوا برف کی مانند
جو بجھ چکی ہے آگ شرر کچھ نہیں آتا
ہر روز اک امید کا میں دیپ جلاؤں
ہر شام اداسی ہے جو گھر کچھ نہیں آتا

0
24
ہم سے وہ اجتناب کرتے ہیں
کیوں حقیقت کو خواب کرتے ہیں
عشق ہے داستاں فناؤں کی
پھر بھی خانہ خراب کرتے ہیں
ہم بھی ہیں گمشدہ محبت کے
خود کو اب بازیاب کرتے ہیں

0
25
تصور میں وہ رہتی ہے بناتی ہے وہ تصویریں
عجب ہے یاد تیری بھی جو پہناتی ہے زنجیریں
قلم جب بھی اٹھاتا ہوں کہیں کچھ بھی جو لکھنا ہو
تجھے پکڑے ہی رہتی ہیں نکلتی ہیں جو تحریریں
مجھے لذت سی ملتی ہے تری اس قید میں جاناں
مجھے آزاد ہونے کی نہیں کرنی ہیں تدبیریں

0
39
میرے دل کی سختیوں میں میں کہاں شامل رہا
سخت جانی میں کمالِ دوستاں شامل رہا
سنگ باری کا ہنر جو مجھ کو حاصل ہے ابھی
محسنوں کا اس میں وہ طرزِ بیاں شامل رہا
میں بیاں کیسے کروں یہ شرم آتی ہے مجھے
لوٹنے میں مجھکو سارا کارواں شامل رہا

28
کوئی بنیاد رکھتے ہیں کسی ایسے فسانے کی
چلو کر لیں کوئی تدبیر ہم خود کو جلانے کی
کہیں سے پھر کوئی بھٹکا ہوا سا تیر آ جائے
سزا ہم کو ملے یوں ساتھ ان کا پھر نبھانے کی
کہ پھر سے دل کے آنگن میں کوئی ہلچل سی مچ جائے
ضرورت پھر سے پڑ جائے جو سازِ غم بجانے کی

0
34
ہے عجب بات کہ تو نے ہے گزارا ہم کو
زندگی تیرے رویے نے ہے مارا ہم کو
ہم نے جس شوقِ تمنا سے تجھے دیکھا تھا
تو نے اپنوں کی طرح کب ہے پکارا ہم کو
کیا جس کو کبھی تھا ہم نے حوالے تیرے
وہ کبھی مل نہ سکا شخص ہمارا ہم کو

0
24
الجھنوں کے جنگل میں جینا ہے مجھے کتنا
جو سوال اٹھتا ہے وہ سوال جیسا ہے
ہر سوال کے اندر کچھ جواب جیسا ہے
واجبی سی دنیا میں کیا کمال جیسا ہے
جو نظر میں آتا ہے وہ ہی خواب جیسا ہے
قہقہوں کی حرکت بھی کیوں کسی فغاں سے ہے

0
31
تو نے تو ترکِ تعلق کی ہے ٹھانی کب سے
میں نے در اپنا ہمیشہ ہی کھلا رکھا ہے
ٰدل کی تختی پہ ترا نقش بنا رکھا ہے
جانے کیوں تو نے مجھے ایسے بھلا رکھا ہے
جیسے پتھر سا کوئی دل میں سجا رکھا ہے
تیرے اندازِ ستم سے بھی ہے رغبت مجھ کو

42
ہم تو کرتے چلے جائیں گے یہ سفر
ویسے بھی کھو دیا ہم نے اپنا وہ گھر
اب تو آوارگی ہے بس آوارگی
میں نے لینا نہیں ہے کوئی خوب تر
اب تو خواہش نہیں ہے کوئی بھی مجھے
مجھ کو کافی ہے میرا یہ سوزِ جگر

24
اس کو ڈھونڈو کہیں وہ گیا ہے کہاں
اجنبی راستے اجنبی ہے جہاں
کوئی چہرہ بھی اس کا شناسا نہیں
جانتا بھی نہیں وہ یہاں کی زباں
کھو گیا ہے کہیں وہ اسی شہر میں
سب ہی رستے پرائے ہیں اس سے یہاں

27
دھیرے دھیرے ہوا پر یہ کیا ہو گیا
ہم میں تم میں یہ کیوں فاصلہ ہو گیا
اس تعلق میں ہم نے فنا ہونا تھا
کیوں ہمارا تعلق فنا ہو گیا
چلو اچھا ہوا خشک صحرا تھا وہ
ایک ساون جو اس کو عطا ہو گیا

23
دور رہ کر جو تُو نے دئے مجھ کو غم
ہم نے دیکھا کہاں تھا یہ طرزِ ستم
ہر نیا زخم تو نے لگایا ہمیں
ہر نئے سوز سے آشنا اب ہیں ہم
ہے فقط تیری چاہت کے ہی یہ سبب
ہو گئے ہیں اسیرِ محبت جو ہم

20
مجھے تیری باتوں پہ پورا یقیں ہے
مگر وسوسہ دل میں رہتا کہیں ہے
یہ چاہوں کہ تجھ سے کنارہ میں کر لوں
مگر تیری عادت بھی جاتی نہیں ہے
یوں تیرے بنا بھی نہیں ہے گزارا
کہ چاہت تری تو بہت ہی حسیں ہے

0
26
دور رہ کر بھی مجھ سے سنبھل جائیں گے
آپ کا کیا پتا تھا بدل جائیں گے
وہ جہاں سے مرے جو نکل جائیں گے
سارے سورج عنایت کے ڈھل جائیں گے
تیرے جیسا ملے گا نہ کوئی ہمیں
ہم سے بہتر کئی تجھ کو مل جائیں گے

40
جو تجھ سے ملن کی دعا میں نے کر دی
محبت میں تیری خطا میں نے کر دی
جو شوقِ تمنا کو لے کے چلا میں
کہ خود سوزی کی انتہا میں نے کر دی
گلہ مجھ سے کچھ بھی تو بنتا نہیں ہے
جو قیمت لگی وہ ادا میں نے کر دی

0
34
اگرچہ لبوں تک یہ آیا بہت ہے
غمِ دل کو ہم نے چھپایا بہت ہے
اسے تو سمجھ میں کبھی کیوں نہ آیا
جو قصہ وفا کا سنایا بہت ہے
یوں مشکل جدائی کی اپنی جگہ پر
غمِ ہجر مجھ کو یوں بھایا بہت ہے

0
31
مجھے اپنے خوابوں کی زینت بنا لے
مجھے اپنی آغوش میں تو چھپا لے
نظر مجھ کو تیرے سوا کچھ نہ آئے
تُو میرے جنوں کو اب ایسے بڑھا لے
ٹُو خود کو بھی کر لے یوں میرے حوالے
محبت مری ہے جو ساری کما لے

0
21
تجھ سے ملا ہوں میں ملتا گیا ہوں
ساتھ ترے پھر میں چلتا گیا ہوں
حسن ترا میں نے دیکھا تو میں بھی
تیری محبت میں کھِلتا گیا ہوں
خود سے مخاطب بھی ہونے لگا ہوں
خود کے بھی اندر میں چلتا گیا ہوں

0
21
چلو کہ پھر سے نیا رازداں بنا لیں ہم
نئی زمین نیا آسماں بنا لیں ہم
کہیں تلاش کریں ہم نئے زمانوں کو
نئے سرے سے کوئی داستاں بنا لیں ہم
تجھے نکال کے اپنے وجود سے ہم بھی
شجر نئے پہ کوئی آشیاں بنا لیں ہم

0
32
تُو آ گیا ہے مرے پاس یہ گماں ہے ابھی
یقینِ وصل کو دیکھوں کہ وہ کہاں ہے ابھی
ترے جو ہجر میں گزری ہیں راتیں وہ میری
میں یہ یقین تو کر لوں کہ تُو یہاں ہے ابھی
کہ تیرے بعد رہا ہوں ترے خیالوں میں
میں دیکھتا جو رہا خواب وہ جواں ہے ابھی

0
24
کبھی راس مجھ کو یہ آئے محبت
کبھی جو یہ مجھ کو جلائے محبت
یہ ہے آرزو اور یہ خواہش مری ہے
شب و روز مجھ کو ستائے محبت
کہ خوشیاں اسی کی ہوں مرہون میری
غموں کے بھی نغمے سنائے محبت

0
22
خود کو بھلا کے رکھ دیا خود کو جلا کے رکھ دیا
ہم نے ادا تری پہ تو خود کو مٹا کے رکھ دیا
تیرے بغیر یہ بھی تو لگتا نہیں ہے کام کا
دل کو تو ہم نے اب کہیں دور اٹھا کے رکھ دیا
میرا بھی عکس آئینہ دے نہ سکے ہے اب مجھے
تیری محبتوں نے تو کیا ہی بنا کے رکھ دیا

0
26
محبت رہے گی رہے گی ہمیشہ
مری آنکھ سے یہ بہے گی ہمیشہ
یہ ہے میرا وعدہ تو خود سے اے جاناں
یہ جاں ظلم تیرا سہے گی ہمیشہ
وفاؤں پہ تیری اٹھیں گی جو باتیں
تُو دنیا سے پھر کیا کہے گی ہمیشہ

35
کہ میرے بعد تجھے چاہتوں کی پیاس ملے
تو دیکھتی رہے کوئی نہ تجھ کو پاس ملے
کمال ہو کہ تو لوٹے مجھے تلاش کرے
نگر نگر تو پھرے اور تجھے بھی یاس ملے
تو بھی بتا نہ سکے زخمِ دل کسی کو کبھی
کہ میرے بعد تجھے زخم ایسا خاص ملے

0
37
یہ جو مصلحت کی ادا تری ہے یہ عشق میں تو روا کہاں
یہ جو سوچ سوچ چلے ہو تم جو فنا نہیں تو وفا کہاں
یہ تو بات آگے کی ہے کہیں نہ یہ عزم مانگے نہ حوصلہ
یہ تو ہے عنایتِ ایزدی جو جلا یہ شعلہ جلا کہاں
یہ جو شرق و غرب کے راز ہیں نہ رہیں گے یہ تو چھپے ہوئے
یہ تلاش خود کی تو خود میں ہے اسے کھوجتا ہے رہا کہاں

0
26
ایام ماہ و سال تو اب سب گزر گئے
تیرے وہ سب کمال تو اب سب گزر گئے
جو محورِ خیال تھیں تیری محبتیں
وہ قیمتی خیال تو اب سب گزر گئے
وہ جستجو تری مرے قرب و جوار کی
وہ پوچھنے سوال تو اب سب گزر گئے

0
27
ہم دربدر جو ہو گئے ہیں تیرے واسطے
میرے نصیب سو گئے ہیں تیرے واسطے
تو پھر پلٹ نہ آ سکے ہیں اپنے گھر کو ہم
اپنے نگر سے جو گئے ہیں تیرے واسطے
تھے چل دئے جو تیری محبت کی راہ پر
ہم راستے میں کھو گئے ہیں تیرے واسطے

0
27
ہر سمت جو یہ جشن کا آغاز ہوا ہے
ہم تجھ سے ملے ہیں تو یہ اعجاز ہوا ہے
رخ سوچ کا میری جو تو نے پھیر دیا ہے
ایسا مری دنیا میں کبھی شاذ ہوا ہے
ہے پھر سے تلاطم کا وہی عزمِ تباہی
دل اپنے سکوں سے جو دغا باز ہوا ہے

0
21
ترتیبِ تخیل۔۔۔ایک تازہ ترین تخلیق
مجھے یہ یاد آتا ہے بہت ہی یاد آتا ہے
کہ جب تم اجنبی سے تھے
بہت ہی اجنبی سے تھے
نہیں تھا دور تک تیرا
کوئی نام و نشاں تب تو

0
38
یہ تری محبتیں
فرقتیں یہ قربتیں
وصل کی وہ راحتیں
وہ جنوں کی ساعتیں
وہ تری حرارتیں
تیری وہ حلاوتیں

0
53
اس نے ہے مجھ کو جلایا اب تک
جو مرے پاس نہ آیا اب تک
منتظر ہوں کہ یہ پورا کب ہو
تو نے جو خواب دکھایا اب تک
زندگی گزری سرابوں کے لئے
خود کو خود سے ہے چھپایا اب تک

0
32
یہ لہجہ تیرا یہ تیری باتیں کہاں گئیں ہیں ادائیں تیری
بناوٹی تھے یہ وعدے تیرے بناوٹی تھیں وفائیں تیری
عجب ہے حالت فرار کی بھی ملے نہ مجھ کو کوئی بھی صورت
میں لاکھ سوچوں کہ بھول جاؤں مگر یہ یادیں تو آئیں تیری
نہ چھوڑا ہم نے تو یارو رستہ ہوا کا کوئی یوں دل کی جانب
یہ خوشبو کیسے مہک رہی ہے کہاں سے آئیں ہوائیں تیری

0
26
کبھی جو کہتے تھے تم بھی مجھ کو
سنبھال رکھنا محبتوں کو
اتار رکھنا انا کی چادر
کہ رابطوں میں پہل ہی کرنا
خیال رکھنا کہ ٹوٹ پائے
نہ رابطوں کی لڑی یہ دلکش

0
30
جمال تیرا کبھی تھا میرے
خیال مرکز
کبھی جگاتا تھا میرے اندر
جنوں کی کونپل حسیں سا جذبہ
مہک تھی ہر سو محبتوں کی
جو منتظر تھا یوں میں بھی تیرا

41
تغیر کی یہ دنیا ہے کہ میں بھی ہوں مکیں اس کا
یقینی بےیقینی میں بھی رہتا ہے یقیں اس کا
بناؤں کیا سجاؤں کیا یہ مٹی کے بتوں کو میں
تخیل نے ہی رہنا ہے جو ہو چہرہ حسیں اس کا
ترے آنے سے جانے تک حسابوں کی ضرورت کیا
جو ملنا ہے یہ مٹی میں جو رہنا ہے یہیں اس کا

32
یہ اب جوشِ جنوں تیرا تجھے برباد کر دے گا
کہ کہنا میں تو ہوں تیرا تجھے برباد کر دے گا
کہ ناصح نے ہے سمجھایا محبت ہے یہ بربادی
چرا کر یہ سکوں تیرا تجھے برباد کر دے گا
کہ تیرا سوچنا کرنا کہ خوابوں کو جگانا بھی
کہ کیسے میں بنوں تیرا تجھے برباد کر دے گا

31
محبت کی راہوں پہ چلتا گیا
مرا وقت یوں ہی گزرتا گیا
زیاں کی نہ مجھ کو خبر ہی ہوئی
جو تھا ہاتھ میرے سرکتا گیا
مجھے زخم لگتے ہی لگتے گئے
مرا دم نکلتا نکلتا گیا

2
41
محبت مری تو یہ اک امتحاں ہے
تمھیں چاہنا بھی یہ کارِ رواں ہے
کبھی یہ شکایت کبھی مہرباں ہے
کبھی پیری ہے یہ کبھی یہ جواں ہے
کہ تجھ سے ملن کی کبھی آس ہے یہ
کبھی یہ جدائی کبھی یہ فغاں ہے

0
32
وہ رہ کے میرے پاس بھی جو دور دور رہ گیا
نہ کہہ کے کوئی بات بھی وہ دل کی بات کہہ گیا
چلی گئی وہ رات بھی گزر گئیں وہ ساعتیں
جو تھے نہیں مرے لئے وہ غم بھی میں تو سہہ گیا
یہ تیری بھی ہیں حجتیں یہ میرے بھی سوال ہیں
یہ ربط تیرا ہے کمال مصلحت میں بہہ گیا

0
46
نہ ملاقات نہ اب شوقِ ملاقات رہا
نہ محبت تھی نہ وہ شعلہِ جذبات رہا
چلو میں ترک کروں خود کو میں آزاد کروں
مرے آنگن میں ترا دکھ بھی جو دن رات رہا
مجھ سے ملنے کو تڑپ جو تُو دکھاتی تھی مجھے
نہ وہ شدت نہ خیالوں میں مرے ساتھ رہا

0
30
ڈھل گئے ہیں ماہ و سال دیکھتے ہی دیکھتے
اُڑ گیا جاہ و جلال دیکھتے ہی دیکھتے
ہو گئی ہیں سب ہی خاک مٹ گئی ہیں رونقیں
شہر ہے اب خال خال دیکھتے ہی دیکھتے
جستجو کی تھی وہ بات پوچھنا ہی پوچھنا
ختم ہیں سارے سوال دیکھتے ہی دیکھتے

0
30
مجھے خود کے روبرو جو یہ لاتا ہے آئینہ
وہ گزرے دنوں کی یاد دلاتا ہے آئینہ
کبھی دے مجھے خوشی کبھی دیتا نویدِ غم
ہنساتا ہے مجھ کو اور رلاتا ہے آئینہ
محرم مرا بھی ہے یہی ہے رازداں مرا
جو کچھ بھول جاؤں یاد دلاتا ہے آئینہ

0
30
شبِ غم ہے کہ سویرا نہیں ہوتا
وہ جو میرا ہے وہ میرا نہیں ہوتا
ہے محبت کے چراغوں کے سبب ہی
وہ جو یادوں پہ اندھیرا نہیں ہوتا
یہ تو بسنے کا جنوں ہے ترے اندر
وہ جو من میں یوں بسیرا نہیں ہوتا

0
34
ترا اقرار کرنا بھی تو کچھ انکار جیسا ہے
یہ کیسا پیار ہے تیرا جو کچھ کچھ پیار جیسا ہے
ترے ملنے سے بھی تجھ سے مرا ملنا نہیں ہوتا
کہ تیرا بولنا مجھ سے عدم گفتار جیسا ہے
کچھ اس کو نام تو دے جو مرے تو ساتھ رہتا ہے
کہ ہے یہ رسمِ دنیا یا کوئی بیوپار جیسا ہے

0
35
محبت کا صلہ کچھ بھی میں تم سے مانگتا کب ہوں
فنا اپنی میں تجھ سے میں امیدیں باندھتا کب ہوں
ہو محرم تم شناسا تم مری سوچوں کا محور تم
مری دنیا میں تیرے بن کسی کو جانتا کب ہوں
تری خواہش مقدم ہے مجھے خود سے بھی اے جاناں
ترے آگے تو خود کی بھی کوئی میں مانتا کب ہوں

0
33
کوئی ایسا اشارہ دے
خدا مجھ کو کنارہ دے
کوئی دکھ پھر خدارا دے
جو مجھ کو کچھ سہارہ دے
جو میرے ان خیالوں کو
نیا اک پھر شرارہ دے

0
45
ساتھ تیرے جو میں سفر میں رہا
زندگی بھر میں اک پہر میں رہا
ہوش میں تو کبھی رہا ہی نہیں
جو رہا میں ترے سِحر میں رہا
شہرتیں بھی تو ہیں عجب سی یہاں
میں تو گمنام پر خبر میں رہا

0
40
اگر تم کو لگے میری محبت سچ پہ مبنی تھی
تو پھر تم لوٹ آنا اور ذرا بھی دیر مت کرنا
اگر عقدہ کبھی کھل جائے اور احساس ہو جائے
تو میرے پاس آ جانا ذرا بھی دیر مت کرنا
کہ تیرا لوٹ آنا منزلیں آسان کر دے گا
یقیں مانو یقیں کر لو ذرا بھی دیر مت کرنا

0
53
شامِ غم تیرا مداوا میں کروں
شوق پر اشک کا سایہ میں کروں
مجھ کو یاد آتی ہے فرقت کی ادا
منتظر بیٹھو تم آیا میں کروں
تم سے ملنے کی تمنا ہے مجھے
روز مل کے تمہیں جایا میں کروں

0
43
سنبھلتے کرتے سنبھل گیا میں
تری محبت میں ڈھل گیا میں
جلائے مجھ کو نہ آگ اب تو
کہ اتنی دفعہ جو جل گیا میں
کہ تجھ میں بسنا ہے لازم اب تو
کہ خود سے اب کے نکل گیا میں

0
43
دعائیں بت کہاں سنتے صدائیں بت کہاں سنتے
ہیں پتھر سے بنے سارے یہ آہیں بت کہاں سنتے
فقط یہ خود کو بہلانے کو ہے یہ کام بس اچھا
وگرنہ علم ہے ہم کو ندائیں بت کہاں سنتے
فقط یہ ظلم ہے جو خود پہ ہے ہم نے روا رکھا
یہ ہے اک خود کلامی سی وفائیں بت کہاں سنتے

0
47
پھر سے کوئی ترے پاس آ جائے گا
مجھ سے جانا تجھے راس آ جائے گا
جب کبھی تجھ سے میں دور ہو جاؤں گا
پھر تجھے میرا احساس آ جائے گا
دل سنبھالے نہ جو سنبھلے گا تیرا پھر
وقت ایسا کوئی خاص آ جائے گا

0
35
گلے شکوے شکایت ہے
یہ جو تیری محبت ہے
یہ تیری سوچ میں ہے کیوں
بری ہر میری عادت ہے
وہ میرا بولنا سننا
نقائص سے عبارت ہے

57
تُو مجھے چھوڑ گیا اپنی انا کی خاطر
رابطہ توڑ گیا مجھ سے جفا کی خاطر
کیسے رنگین رہا تجھ سے تعلق میرا
خونِ دل ہم نے دیا رنگِ حنا کی خاطر
وہ جو لاتی تھی تری خوشبو مرے آنگن میں
ہم نے وہ یاد رکھا بادِ صبا کی خاطر

43
ہم سے یہ ہو نہ سکا ایسی جسارت کرتے
لوگ دیکھے ہیں محبت میں تجارت کرتے
میری سوچوں کو جو بے ربط کیا ہے تم نے
میرے پاکیزہ خیالوں کو نہ غارت کرتے
سادگی نے مجھے اپنی ہے دکھایا یہ دن
ہم بھی منظورِ نظر ہوں جو شرارت کرتے

0
49
عشق تیرے نے سنوارا مجھ کو
درد تیرا ہے سہارا مجھ کو
ہے ملاقات بھی دلکش تیری
ہجر تیرے نے نکھارا مجھ کو
زیر دشمن سے کہاں ہونا تھا
تیرے الفاظ نے مارا مجھ کو

0
54
طاق جو دل میں بنا کے رکھا ہے
درد کو ہم نے چھپا کے رکھا ہے
اندر اندر سے ہی ہے مارے ہمیں
زہر جو خود کو پلا کے رکھا ہے
تیرا جلنا نہیں مقصود ہمیں
آگ کو ہم نے بجھا کے رکھا ہے

0
33
آؤ دیکھو کہ بکھرتے ہیں کیسے
ہجر میں ترے ہم مرتے ہیں کیسے
تم کبھی ترے پروانوں کو دیکھو
تیرے شوق میں جلتے ہیں کیسے
تیرے عشق کی بس اوڑھ کے چادر
خارزاروں میں یہ چلتے ہیں کیسے

0
55
تم سے جو بات اب نہیں ہوتی
صبح کیا رات اب نہیں ہوتی
ملنا تیرا جو تھا قیامت تب
وہ ملاقات اب نہیں ہوتی
یہ تو دعویٰ فقط رہا تیرا
تو مرے ساتھ اب نہیں ہوتی

77
میرے سپنوں کا شیرازہ کر کے
مجھ کو ایسے ہی رہ لینے دے دو
اب نہ امید کوئی دو مجھ کو
غم جدائی کا سہہ لینے دے دو
میرے سینے میں جو پلتا ہے غم
اشک آنکھوں سے بہہ لینے دے دو

0
47
داستاں پھر کوئی اپنے سے عبارت کر لیں
پھر سے اک بار یوں تھوڑی سی شرارت کر لیں
پھر سے بنیاد محبت کی کہیں رکھ لیں ہم
پھر سے مل کر اسے ہم دونوں عمارت کر لیں
آؤ مل کر یوں بسا لیتے ہیں دنیا اپنی
عہد و پیمان کی یوں پھر سے جسارت کر لیں

0
79
اک تلخ حقیقت تھی بھلاتا بھی نہیں ہوں
پھر دیپ محبت کا جلاتا بھی نہیں ہوں
آغوش تری مجھ کو ستائے ہے اگرچہ
یادوں سے تری دور میں جاتا بھی نہیں ہوں
وہ دور ترے وصل کا آتا بھی نہیں ہے
اور ہجر کا میں ساز بجاتا بھی نہیں ہوں

0
62
تبدیل ہوا تیرا یہ اندازِ تخاطب
باتیں جو کرے مجھ سے نہیں تھا میں مخاطب
اس بار تو لگتا ہے ترا چھوڑنا مجھ کو
اس بار تو بدلے سے ہیں ہم سے یہ کواکب
ملتے رہے ہیں ہجر کے دکھ مجھ کو مسلسل
اس بار نہ لکھنا مری تقدیر میں کاتب

0
50
حادثوں کی دنیا میں حادثہ نہیں کوئی
ساتھ ہے ترا جاناں سانحہ نہیں کوئی
شام ہو سویرا ہو رات ہو اندھیرا ہو
موسموں کا ہم کو تو مسئلہ نہیں کوئی
ذائقہ کوئی بھی ہو شربتی سا لگتا ہے
تو نہ ہو مری جاں تو ذائقہ نہیں کوئی

0
55
اپنے غم سے میں کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
تیرا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے دنیا بھی کیسی ہو گی
بن ترے اس کا نظارہ کر لوں

0
56
کشتیاں ساری ہی اس پار کہیں چھوڑ آئے
تیرے ادوار سے نکلوں تو کوئی دور آئے
تیرا چہرہ ہی نظر آئے ہے ہر سو مجھ کو
تو مری سوچ سے نکلے تو کوئی اور آئے
زندگی میں تو کبھی سوچ نہیں سکتا میں
مری سوچوں میں ترے بعد کوئی موڑ آئے

0
41
لفظوں کی تجارت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
تجھ سے جو محبت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
وعدے وحدتوں کے تجھ سے مجھے نہیں کرنے
یہ جو اک حماقت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
اس انا کی قربانی یہ مجھے نہیں کرنا
خود میں جو ملاوٹ ہے یہ مجھے نہیں کرنی

0
60
الجھ الجھ کے سلجھ رہا ہوں
سلجھ کے میں پھر الجھ رہا ہوں
کبھی کنارا ملے گا مجھ کو
کوئی سہارا ملے گا مجھ کو
کوئی نظارہ ملے گا مجھ کو
مرا ستارہ ملے گا مجھ کو

0
64
ہم نے تو چھوڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا
واسطہ توڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا
کوئی امید میں تم سے نہیں رکھتا ہوں کیا
تم سے منہ موڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا
تیری یادوں کی لڑی توڑ چکا ہوں میں کیا
دل کہیں جوڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا

0
50
یہ فاصلوں کے فلسفے جدائیوں کے رتجگے
یہ زندگی کا حسن ہے یہ نم رتوں کے قہقہے
یہ آنسوؤں کی بارشیں یہ زیرِ لب شرارتیں
ملن کی یہ مسرتیں یہ فرقتوں کے سلسلے
گمان زندگی کا یہ امانِ زندگی ہے یہ
یہ ساماں زندگی کا ہے یہ زندگی کے وسوسے

0
63
ہم سے تم اب کوئی نہ آس رکھو
اپنے خوابوں کو اپنے پاس رکھو
تیری تفریق یہ ہے بے معنی
جسے چاہو جسے بھی خاص رکھو
اب یہ جچتا نہیں تجھے بس تُو
مجھ سے کوئی امید و یاس رکھو

0
48
تُو ساتھ تھا تو یہ معاملہ تھا
اُس قید میں آزاد سلسلہ تھا
اک خشک ٹہنی پر خزاں کی رُت میں
بیٹھی تھی بلبل پھول بھی کھلا تھا
خاموش رہ کر بھی بیاں ہو جاتا
لب بند تھے اظہار برملا تھا

0
53
تجھ سے ملنے کے بہانے ڈھونڈوں
کھو چکے جو وہ زمانے ڈھونڈوں
میری آنکھوں میں بسے تھے جو سب
ٹوٹے وہ خواب سہانے ڈھونڈوں
لمحے وہ قرب کے ہیں کھو گئے سب
گزرے وہ وقت پرانے ڈھونڈوں

0
35
ہم میں جھگڑے کی وجہ کچھ بھی نہیں
قربتوں نے بھی دیا کچھ بھی نہیں
تجھ سے جو دور تھا ایسا ہی تھا میں
تجھ سے مل کر بھی ملا کچھ بھی نہیں
اب تو یہ رسم ہے گفتار کی بس
تیرے میرے میں رہا کچھ بھی نہیں

0
41
مجھ پہ موسم کا اثر کچھ بھی نہیں
ہو نہ تیری تو خبر کچھ بھی نہیں
میرے آنگن کی مہک تیرے سبب
نہیں ہے تُو تو یہ گھر کچھ بھی نہیں
بن ترے وقت گزرنا بھی عجب
شب جو گزرے بھی سحر کچھ بھی نہیں

0
52
مجھ سے نا ملنے کے وعدے پہ تو قائم رہنا
کون سے رشتے کو میسر یہاں دائم رہنا
تو نے بھی مجھ سے محبت جو کی شرطوں شرطوں
تم نے سیکھا ہے کہاں مجھ سے یوں باہم رہنا
تیری اغراض سے تھی مجھ کو غرض کیا ہونی
تیری الفت سے جڑا مجھ کو تھا تاہم رہنا

0
75
شاید وہ میرے شوق کی شدت نہیں رہی
جو اس کو اب وہ ہم سے محبت نہیں رہی
میرا ہی وسوسہ تھا جو اب سچ سا ہو گیا
اس کی اداؤں میں تو وہ چاہت نہیں رہی
میں ڈوب چکا جو ترے دریا میں اس قدر
ساحل کو دیکھنے کی تو جرات نہیں رہی

0
42
تحقیرِ محبت ہے اگر ضبط نہیں ہے
عجلت کا محبت سے تو کچھ ربط نہیں ہے
بنیاد میں تیرے ہو نہ اکرام کا عنصر
تو اور کیا ہے یہ اگر خبط نہیں ہے
دل دے چکے ہیں ان کو تو آوارگی میں ہم
انکار پہ راضی تو یہ کمبخت نہیں ہے

0
55
میں قلب و جاں کا اب تو قرار چاہتا ہوں
میں خودستائشی سے فرار چاہتا ہوں
یہ سوچ کی جو گردش ہے خود کے دائرے میں
خیال پر میں اپنے نکھار چاہتا ہوں
تُو اور میں کی باتیں عجیب تر ہیں یہ سب
میں تُو ہی تُو کا تو اب شرار چاہتا ہوں

0
42
اے زندگی تو مل مجھے ہے کیوں یونہی رکی ہوئی
اگل بھی دے وہ راز بھی وہ بات بھی چھپی ہوئی
میں دیکھ لوں یہ رخ ترا میں بات کو سمجھ تو لوں
اٹھا سکوں میں وہ نظر جو کب سے ہے جھکی ہوئی
اے زندگی قریب آ نہ دور جا مجھے دکھا
وہ لذتیں خوشی کی سب وہ سوچ بھی دکھی ہوئی

0
51
جا رہا ہے کس طرف زندگی کا یہ سفر
خود کو جان پایا میں نہ رکھ سکا تری خبر
کیا عجب ہے سلسلہ ہر کڑی الگ الگ
وقت یہ ہے مختصر آج اِدھر تو کل اُدھر
ضبط و خبط کا مزہ کھو چکے ہیں ہم تو اب
خار میں چبھن نہیں پھول بھی ہیں بے اثر

0
42
آنکھوں میں جو بادل ہے برستا بھی نہیں ہے
سانسوں کا جو آنچل ہے سرکتا بھی نہیں ہے
کس آگ میں جھونکا ہے تری دید نے مجھکو
یہ وقت رکا ہے کہ گزرتا بھی نہیں ہے
اب رقص میں رہتی ہے تری سوچ مرے میں
فرقت کا دیا اب کہیں جلتا بھی نہیں ہے

2
67
تشہیرِ تعلق نے دیا کچھ بھی نہیں ہے
اک درد سا ہے اور ملا کچھ بھی نہیں ہے
اس سوچ میں رہتا تھا تلاطم جو ہمیشہ
وہ سوچ بیاباں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
چلتا رہا ہوں اک ترے جو خواب کے پیچھے
وہ خواب ہی تھا اور صلہ کچھ بھی نہیں ہے

0
42
تنہائیوں کے ڈر سے تنہا رہا ہوں میں
ان چاہتوں کے در سے سہما رہا ہوں میں
بنتا رہا ہوں گنجل سوچوں کی راہ پر
ان عادتوں میں اپنی سادہ رہا ہوں میں
موجوں کو سر اٹھانے کی حسرتیں رہیں
جذبوں میں اس طرح سے پنہاں رہا ہوں میں

0
43
زادِ راہ جو تھا وہ سب قلیل کر دیا
عشق نے تو درد میرا طویل کر دیا
اجنبی تھا ہمسفر زندگی کی راہ میں
وقت نے وہ شخص میرا کفیل کر دیا
وصل کے جو لمحے تھے ہو گئے ہیں خواب سب
مجھ کو تیرے ہجر نے اب علیل کر دیا

0
43
رازِ دل مجھ کو وہ اب ایسے بتانے آئے
جیسے احسان کوئی مجھ کو جتانے آئے
خواب کی طرح گزرتے ہیں شب و روز اپنے
اس جہاں میں تو کیا خواب کمانے آئے
پھر کبھی اس نے تکلم نہ کیا تھا مجھ سے
وہی اک بار جو دل کو یوں جلانے آئے

0
29
پکار وہ تڑپ جواں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ چاہتوں کی داستاں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ خواب تھا خیال تھا کہ خوشنما سا جال تھا
لگن تھی وہ جو جانِ جاں کہاں چلی گئی ہے سب
سخن ترا تھا اک کمال لازوال ادا تری
وہ اب یہاں تو اب وہاں کہاں چلی گئی ہے سب

0
48
تم سے ملنا کبھی اتنا بھی تو دشوار نہ تھا
جیسا اب ہوں کبھی اتنا بھی تو بیمار نہ تھا
میرے ایام گزرتے ہیں اذیت میں ہی کیوں
زندگی سے کبھی ایسے بھی تو دوچار نہ تھا
کیسے فرقت کے شب و روز جو گم ہو گئے سب
اس جدائی کے لئے میں بھی تو تیار نہ تھا

0
41
وہ میرے خدوخال کے نشان مٹ گئے
مکین مٹ گئے اور اب مکان مٹ گئے
وہ دھول میں چھپی ہوئی ہے میری ذات تو
وہ تھے جو اپنے سارے قدر دان مٹ گئے
جو چھوڑ کر چلے گئے ہو کس کے آسرے
وہ تجھ پہ جو کئے تھے سب ہی مان مٹ گئے

0
70
عشق میں فناء کا انتخاب کر لیا
ناخدا کے قرب سے اجتناب کر لیا
پھر کسی سراب کی سمت میں نہ جاؤں گا
عہد تجھ سے دوریوں کا جناب کر لیا
عہد و پیماں ڈھارسیں یہ تکلفات ہیں
کیوں وفا کے جرم کا ارتکاب کر لیا

0
59
دل کا یہ حال میں اب تم پہ عیاں کیسے کروں
اپنے لفظوں کو میں اب شعلہ بیاں کیسے کروں
تیرے اطوار نے پتھر سا بنایا ہے مجھے
میرے آنگن سے میں پھولوں کا گماں کیسے کروں
یہ جو پہروں تری یادوں نے رلایا ہے مجھے
تیری سوچوں کی میں تدفین کہاں کیسے کروں

0
37
وہ طلب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے
جاں بلب میری جو تھی وہ اب بھی ہے
بھول سکتا ہوں میں کیسے تجھ کو اب
تو سبب جینے کا تھی وہ اب بھی ہے
تیری شرطوں پر محبت کیا کروں
میری شب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے

0
43
وہ ربط جو تھا سانس کا وہ ربط بھی گنوا دیا
وہ تم نے میرے شوق کا ہر آشیاں جلا دیا
وہ لفظ اب نہیں رہے وہ بات بھی نہیں رہی
بیان کا وہ راستہ تو تم نے اب مٹا دیا
وہ تیرے آنے سے مجھے جو مل گئی تھی روشنی
وہ تُو گیا تو کیا گیا وہ دیپ بھی بجھا دیا

0
46
وہ منزلیں کہاں پہ ہیں وہ راستے کدھر گئے
یوں ڈھونڈتے تجھے رہے جہاں جہاں جدھر گئے
ؤہ ہم تو تیری سوچ میں لگے رہے ہیں روز و شب
یہ لوگ کہتے ہیں ہمیں کہ اب کے ہم سدھر گئے
یہ تم کو دے جو بھی خبر یہ زلف کی بے چینیاں
یوں رہ کے تیری یاد میں قدم قدم نکھر گئے

0
61
آنکھوں میں میری نیند نہ آئے ہے رات بھر
بس یاد تیری مجھ کو ستائے ہے رات بھر
جادو سا تیری مست نگاہی نے کر دیا
سانسوں میں تیری خوشبو جگائے ہے رات بھر
کل ہاتھ میرے ہاتھ پہ تھا رکھ دیا تو نے
اب لمس تیرے ہاتھ کا آئے ہے رات بھر

0
50
بخت اپنے ہیں کہاں تجھ کو یوں پانے والے
زیست کے دکھ ہیں کہ اندر سے جلانے والے
کیسے بکھرا ہے خیالوں کا تسلسل میرا
کیسے سب چھوڑ گئے ساتھ نبھانے والے
اپنے دامن میں ہے کانٹوں کا بسیرا اب تو
ہو گئے اب وہ جدا باغ لگانے والے

0
57
اس ہجر میں وہ ہجر کا سا وہ مزا نہیں
ملنی جو تھی وہ عشق میں یہ وہ سزا نہیں
اب دوریاں بھی مجھ کو تو بے تاب نا کریں
اب ملنے کی بھی دیتا ہوں تجھ کو صدا نہیں
احساس تیرے ہونے کا اب ہے نہیں مجھے
چہرے سے تیرے میری محبت بھی وا نہیں

0
67
وہ تری برسات اب نہیں ہوتی
تجھ سے ملاقات اب نہیں ہوتی
گفتگو تجھ سے ہوتی ہے میری
ویسے کوئی بات اب نہیں ہوتی
تیرا تخیل ہوتا تھا شب بھر
ویسی کوئی رات اب نہیں ہوتی

0
49
یہ مرے شہر ہوئے شہرِ خموشاں
نہ بچا گل نہ رہا کوئی گلستاں
وہ ترا عہدِ حسیں جو ہو گیا گم
نہ ترا وصل نہ کوئی شبِ ہجراں
نہ وہ راتوں کی طوالت وہ مرا غم
نہ مری آنکھ نہ آنسو نہ دل و جاں

0
52
میں بھی نکلا تھا کہیں عشق کمانے کے لئے
دل کے آنگن میں کوئی دیپ جلانے کے لئے
ہو گئے اب وہ پرانے جو ملے زخم مجھے
پھر سے تیار ہوں میں دوست بنانے کے لئے
کر دو افکار کی ترتیب سے بیگانہ مجھے
دل میں اک سوز کہیں پھر سے جگانے کے لیے

0
64
بات ایسی تو نہ تھی تم نے بڑھائی جیسے
ایسا کب کرتے ہیں تم نے جو نبھائی جیسے
تم مرے شوق کی تحقیر کئے جاتے ہو
پیار کی ہم سے کراتے ہو گدائی جیسے
تیری ہر بات کا احساس رہا ہے مجھ کو
میری ہر بات کہ لگتی ہو پرائی جیسے

0
66
بات ایسی تو نہ تھی تم نے بڑھائی جیسے
ایسا کب کرتے ہیں تم نے جو نبھائی جیسے
تم مرے شوق کی تحقیر کئے جاتے ہو
پیار کی ہم سے کراتے ہو گدائی جیسے
تیری ہر بات کا احساس رہا ہے مجھ کو
میری ہر بات کہ لگتی ہو پرائی جیسے

0
48
بات ایسی تو نہ تھی تم نے بڑھائی جیسے
ایسا کب کرتے ہیں تم نے جو نبھائی جیسے
تم مرے شوق کی تحقیر کئے جاتے ہو
پیار کی ہم سے کراتے ہو گدائی جیسے
تیری ہر بات کا احساس رہا ہے مجھ کو
میری ہر بات کہ لگتی ہو پرائی جیسے

0
61
یہ مرے شہر ہوئے شہرِ خموشاں
نہ بچا گل نہ رہا کوئی گلستاں
وہ ترا عہدِ حسیں جو ہو گیا گم
نہ ترا وصل نہ کوئی شبِ ہجراں
نہ وہ راتوں کی طوالت وہ مرا غم
نہ مری آنکھ نہ آنسو نہ دل و جاں

0
53
وہ تری برسات اب نہیں ہوتی
تجھ سے ملاقات اب نہیں ہوتی
گفتگو تجھ سے ہوتی ہے میری
ویسے کوئی بات اب نہیں ہوتی
تیرا تخیل ہوتا تھا شب بھر
ویسی کوئی رات اب نہیں ہوتی

52
اس ہجر میں وہ ہجر کا سا وہ مزا نہیں
ملنی جو تھی وہ عشق میں یہ وہ سزا نہیں
اب دوریاں بھی مجھ کو تو بے تاب نا کریں
اب ملنے کی بھی دیتا ہوں تجھ کو صدا نہیں
احساس تیرے ہونے کا اب ہے نہیں مجھے
چہرے سے تیرے میری محبت بھی وا نہیں

0
59
بخت اپنے ہیں کہاں تجھ کو یوں پانے والے
زیست کے دکھ ہیں کہ اندر سے جلانے والے
کیسے بکھرا ہے خیالوں کا تسلسل میرا
کیسے سب چھوڑ گئے ساتھ نبھانے والے
اپنے دامن میں ہے کانٹوں کا بسیرا اب تو
ہو گئے اب وہ جدا باغ لگانے والے

0
47
آنکھوں میں میری نیند نہ آئے ہے رات بھر
بس یاد تیری مجھ کو ستائے ہے رات بھر
جادو سا تیری مست نگاہی نے کر دیا
سانسوں میں تیری خوشبو جگائے ہے رات بھر
کل ہاتھ میرے ہاتھ پہ تھا رکھ دیا تو نے
اب لمس تیرے ہاتھ کا آئے ہے رات بھر

49
وہ منزلیں کہاں پہ ہیں وہ راستے کدھر گئے
یوں ڈھونڈتے تجھے رہے جہاں جہاں جدھر گئے
ؤہ ہم تو تیری سوچ میں لگے رہے ہیں روز و شب
یہ لوگ کہتے ہیں ہمیں کہ اب کے ہم سدھر گئے
یہ تم کو دے جو بھی خبر یہ زلف کی بے چینیاں
یوں رہ کے تیری یاد میں قدم قدم نکھر گئے

85
وہ ربط جو تھا سانس کا وہ ربط بھی گنوا دیا
وہ تم نے میرے شوق کا ہر آشیاں جلا دیا
وہ لفظ اب نہیں رہے وہ بات بھی نہیں رہی
بیان کا وہ راستہ تو تم نے اب مٹا دیا
وہ تیرے آنے سے مجھے جو مل گئی تھی روشنی
وہ تُو گیا تو کیا گیا وہ دیپ بھی بجھا دیا

75
وہ طلب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے
جاں بلب میری جو تھی وہ اب بھی ہے
بھول سکتا ہوں میں کیسے تجھ کو اب
تو سبب جینے کا تھی وہ اب بھی ہے
تیری شرطوں پر محبت کیا کروں
میری شب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے

0
51
دل کا یہ حال میں اب تم پہ عیاں کیسے کروں
اپنے لفظوں کو میں اب شعلہ بیاں کیسے کروں
تیرے اطوار نے ہے مجھ کو بنایا پتھر
میرے آنگن سے میں پھولوں کا گماں کیسے کروں
تیری یادوں نے کیا ہے کیا حالِ دل اب
تیری سوچوں کی میں تدفین کہاں کیسے کروں

0
58
دل کا یہ حال میں اب تم پہ عیاں کیسے کروں
اپنے لفظوں کو میں اب شعلہ بیاں کیسے کروں
تیرے اطوار نے ہے مجھ کو بنایا پتھر
میرے آنگن سے میں پھولوں کا گماں کیسے کروں
تیری یادوں نے کیا ہے کیا حالِ دل اب
تیری سوچوں کی میں تدفین کہاں کیسے کروں

73
عشق میں فناء کا انتخاب کر لیا
ناخدا کے قرب سے اجتناب کر لیا
پھر کسی سراب کی سمت میں نہ جاؤں گا
عہد تجھ سے دوریوں کا جناب کر لیا
عہد و پیماں ڈھارسیں یہ تکلفات ہیں
کیوں وفا کے جرم کا ارتکاب کر لیا

0
92
عشق میں فناء کا انتخاب کر لیا
ناخدا کے قرب سے اجتناب کر لیا
پھر کسی سراب کی سمت میں نہ جاؤں گا
عہد تجھ سے دوریوں کا جناب کر لیا
عہد و پیماں ڈھارسیں یہ تکلفات ہیں
کیوں وفا کے جرم کا ارتکاب کر لیا

0
66
وہ میرے خدوخال کے نشان مٹ گئے
مکین مٹ گئے اور اب مکان مٹ گئے
وہ دھول میں چھپی ہوئی ہے میری ذات تو
وہ تھے جو اپنے سارے قدر دان مٹ گئے
جو چھوڑ کر چلے گئے ہو کس کے آسرے
وہ تجھ پہ جو کئے تھے سب ہی مان مٹ گئے

0
78
تم سے ملنا کبھی اتنا بھی تو دشوار نہ تھا
جیسا اب ہوں کبھی اتنا بھی تو بیمار نہ تھا
میرے ایام گزرتے ہیں اذیت میں ہی کیوں
زندگی سے کبھی ایسے بھی تو دوچار نہ تھا
کیسے فرقت کے شب و روز جو گم ہو گئے سب
اس جدائی کے لئے میں بھی تو تیار نہ تھا

0
67
پکار وہ تڑپ جواں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ چاہتوں کی داستاں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ خواب تھا خیال تھا کہ خوشنما سا جال تھا
لگن تھی وہ جو جانِ جاں کہاں چلی گئی ہے سب
سخن ترا تھا اک کمال لازوال ادا تری
وہ اب یہاں تو اب وہاں کہاں چلی گئی ہے سب

0
62
رازِ دل مجھ کو وہ اب ایسے بتانے آئے
جیسے احسان کوئی مجھ کو جتانے آئے
خواب کی طرح گزرتے ہیں شب و روز اپنے
اس جہاں میں تو کیا خواب کمانے آئے
پھر کبھی اس نے تکلم نہ کیا تھا مجھ سے
وہی اک بار جو دل کو کبھی بہلانے آئے

0
56
بے تیر کماں ہوتا گر تم نہیں ہوتے
عبرت کا نشاں ہوتا گر تم نہیں ہوتے
آنکھوں سے تری دیکھوں ہنگامہِ فردا
یہ کیسا جہاں ہوتا گر تم نہیں ہوتے
جس طرح جمی ہو کوئی برف مرے پر
ویسا یہ گماں ہوتا گر تم نہیں ہوتے

0
95
زادِ راہ جو تھا وہ سب قلیل کر دیا
عشق نے تو درد میرا طویل کر دیا
اجنبی تھا ہمسفر زندگی کی راہ میں
وقت نے وہ شخص میرا کفیل کر دیا
وصل کے جو لمحے تھے ہو گئے ہیں خواب سب
مجھ کو تیرے ہجر نے اب علیل کر دیا

81
تنہائیوں کے ڈر سے تنہا رہا ہوں میں
ان چاہتوں کے در سے سہما رہا ہوں میں
بنتا رہا ہوں گنجل سوچوں کی راہ پر
ان عادتوں میں اپنی سادہ رہا ہوں میں
موجوں کو سر اٹھانے کی حسرتیں رہیں
جذبوں میں اس طرح سے پنہاں رہا ہوں میں

0
57
تشہیرِ تعلق نے دیا کچھ بھی نہیں ہے
اک درد سا ہے اور ملا کچھ بھی نہیں ہے
اس سوچ میں رہتا تھا تلاطم جو ہمیشہ
وہ سوچ بیاباں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
چلتا رہا ہوں اک ترے جو خواب کے پیچھے
وہ خواب ہی تھا اور صلہ کچھ بھی نہیں ہے

0
84
آنکھوں میں جو بادل ہے برستا بھی نہیں ہے
سانسوں کا جو آنچل ہے سرکتا بھی نہیں ہے
کس آگ میں جھونکا ہے تری دید نے مجھکو
یہ وقت رکا ہے کہ گزرتا بھی نہیں ہے
اب رقص میں رہتی ہے تری سوچ مرے میں
فرقت کا دیا اب کہیں جلتا بھی نہیں ہے

0
68
مجھ پہ موسم کا اثر کچھ بھی نہیں
ہو نہ تیری تو خبر کچھ بھی نہیں
تیری چاہت سے کھِلا آنگن یہ
نہیں ہے تُو تو یہ گھر کچھ بھی نہیں
تو نہ ہو تو مرا مقصد کیا ہے
شب جو گزرے بھی سحر کچھ بھی نہیں

0
69
ہم میں جھگڑے کی وجہ کچھ بھی نہیں
قربتوں نے بھی دیا کچھ بھی نہیں
دور تھا تجھ سے تو ایسا ہی تھا
تجھ سے مل کر بھی ملا کچھ بھی نہیں
ہم نے تو لاکھ بتایا تجھ کو
تیرے میرے میں رہا کچھ بھی نہیں

0
82
جا رہا ہے کس طرف زندگی کا یہ سفر
جان پایا خود کو میں نہ رکھ سکا تری خبر
کیا عجب ہے سلسلہ ہر کڑی الگ الگ
وقت یہ ہے مختصر آج اِدھر تو کل اُدھر
ضبط و خبط کا مزہ کھو چکے ہیں ہم تو اب
خار میں چبھن نہیں پھول بھی ہیں بے اثر

0
65
چاندنی میں یہ اندھیرا سا کیوں ہوتا ہے
گر نہیں میرا تو میرا سا کیوں ہوتا ہے
رتجگی نیم وا آنکھوں میں آ جائے جب
رات کے وقت سویرا سا کیوں ہوتا ہے
ساتھ تو تیرا جو رہتا ہے ہر دم ہر سو
گر نہیں ہے تو وہ تیرا سا کیوں ہوتا ہے

0
106
اے زندگی تو مل مجھے ہے کیوں یونہی رکی ہوئی
اگل بھی دے وہ راز بھی وہ بات بھی چھپی ہوئی
میں دیکھ لوں یہ رخ ترا میں بات کو سمجھ تو لوں
اٹھا سکوں میں وہ نظر جو کب سے ہے جھکی ہوئی
اے زندگی قریب آ نہ دور جا مجھے دکھا
وہ لذتیں خوشی کی سب وہ سوچ بھی دکھی ہوئی

0
101
تجھ سے ملنے کے بہانے ڈھونڈوں
کھو چکے جو وہ زمانے ڈھونڈوں
میری آنکھوں میں بسے تھے جو سب
ٹوٹے وہ خواب سہانے ڈھونڈوں
گم ہوئی وہ جو مری ساعتِ قرب
گزرے وہ وقت پرانے ڈھونڈوں

58
کشتیاں ساری ہی اس پار کہیں چھوڑ آئے
تیرے ادوار سے نکلوں تو کوئی دور آئے
مجھ کو معلوم نہیں ہے کوئی دنیا ترے بن
تو مری سوچ سے نکلے تو کوئی اور آئے
میں نے سوچا بھی نہیں اور یہ ممکن بھی نہیں
مری سوچوں میں ترے بعد کوئی موڑ آئے

0
64
مجھ سے نا ملنے کے وعدے پہ تو قائم رہنا
کون سے رشتے کو میسر یہاں دائم رہنا
تو بھی منسوب رہا مجھ سے شرائط کے عوض
تم نے سیکھا ہے کہاں مجھ سے یوں باہم رہنا
تیری اغراض سے تھی مجھ کو غرض کیا ہونی
تیری الفت سے جڑا مجھ کو تھا تاہم رہنا

0
85
میں قلب و جاں کا اب تو قرار چاہتا ہوں
میں خودستائشی سے فرار چاہتا ہوں
یہ گردشیں ہیں خود کے جو دائروں میں سب
خیال پر میں اپنے نکھار چاہتا ہوں
تُو اور میں کی باتیں عجیب تر ہیں یہ سب
میں تُو ہی تُو کا تو اب شرار چاہتا ہوں

0
78
تحقیرِ محبت ہے اگر ضبط نہیں ہے
عجلت کا محبت سے تو کچھ ربط نہیں ہے
بنیاد میں تیرے ہو نہ اکرام کا عنصر
بس اور کیا ہے یہ گر یہ خبط نہیں ہے
دل دے چکے ان کو نادانستگی میں ہم
انکار پہ راضی یہ کمبخت نہیں ہے

0
133
شاید وہ میرے شوق کی شدت نہیں رہی
جو اس کو اب وہ ہم سے محبت نہیں رہی
میرا ہی وسوسہ تھا جو اب سچ سا ہو گیا
اس کی اداؤں میں تو وہ چاہت نہیں رہی
میں ڈوب چکا جو ترے دریا میں اس قدر
ساحل کو دیکھنے کی تو جرات نہیں رہی

0
56
تُو ساتھ تھا تو یہ معاملہ تھا
اُس قید میں آزاد سلسلہ تھا
اک خشک ٹہنی پر خزاں کی رُت میں
بیٹھی تھی بلبل پھول بھی کھلا تھا
خاموش رہ کر بھی بیاں ہو جاتا
لب بند تھے اظہار برملا تھا

0
85
چاہ سے ہم فناہ تک پہنچے
یہ مرض اب دعا تک پہنچے
منتظرِ منزل ہوں میں
تیرگی انتھا تک پہنچے
تیرا وصل نہیں مقصود
عشق اب جزا تک پہنچے

0
103
تیری نظر میں نشہ ہے تری باتوں میں ہے نشہ
صبحوں میں نشہ ہے تری راتوں میں ہے نشہ
شامیں جو ہیں معطر تیری یادوں سے میری
خلوت میں نشہ ہے ملاقاتوں میں ہے نشہ
کھل کے بیاں ہوتا ہے احوالِ قرب و وصل
یہ عقدہ کھل چکا کہ چاہتوں میں ہے نشہ

0
115
تیری نظر میں نشہ ہے تری باتوں میں ہے نشہ
صبحوں میں نشہ ہے تری راتوں میں ہے نشہ
شامیں جو ہیں معطر تیری یادوں سے میری
خلوت میں نشہ ہے ملاقاتوں میں ہے نشہ
کھل کے بیاں ہوتا ہے احوالِ قرب و وصل
یہ عقدہ کھل چکا کہ چاہتوں میں ہے نشہ

0
74
ترکِ تعلق
غمِ ہستی سے کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
ترا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے دنیا بھی کیا دِکھتی ہو گی

0
143
میرے ہونے سے کوئی فرق اگر نہیں پڑتا
تم مجھے کھونے کا بھی ویسے تجربہ کر لے
میرے اندیشوں کو یقیں کا لبادہ دے کر
میرے بغیر ہی زندگی کا تُو تہیہ کر لے
تیری ضرورت سے میں گر یوں زیادہ ہوں تو
بس کسی اور کے نام مجھے تُو عطیہ کر لے

0
2
117
فرصت کے لمحات میں فرصت نہیں ملی
اے زندگی تجھ سے بھی قربت نہیں ملی
گزرے ماہ و سال کسی کے لیے ہی جو
گزرے یوں سب ایام کی اجرت نہیں ملی
بسرے ہوئے لمحات کو سنبھال تو لیں ہم
جس طرح سے ملنی تھی وہ شہرت نہیں ملی

0
144
تم مجھے ٹُوٹ کے چاہنے کی بس اجازت دے دو
یارا خود میں بس جانے کی اجازت دے دو
ترتیب اپنی سے تم مجھ کو بھی مرتب کر دو
خود کی دنیا میں آ جانے کی اجازت دے دو
میسر قربِ یار کی اک ساعت ہی ہو جائے
مے نہ دو بس مے خانے کی ہی اجازت دے دو

0
2
151
گر گیا میں تو اٹھانے کون آیا
چل پڑا میں تو گرانے کون آیا
زیست میں شامل ہوا جب سے ترا عشق
نغمہِ غم پھر سنانے کون آیا
تجھ کو منانے کی تگ و دو تھا کرتا
روٹھا جب میں تو منانے کون آیا

0
94
گر گیا میں تو اٹھانے کون آیا
چل پڑا میں تو گرانے کون آیا
زیست میں شامل ہوا جب سے ترا عشق
نغمہِ غم پھر سنانے کون آیا
ہمایوں

0
95
برگِ تر کیوں سوکھنے کے بہانے مانگے
جب وہ شخص بھی روٹھنے کے بہانے مانگے
ترکِ خیال پر اسکو کمال ہے سنا ہے
حال ان کا من پوچھنے کے بہانے مانگے
لاکھ بھلانے کی ان کو سعی کر لوں میں
سوچ ان کو بس سوچنے کے بہانے مانگے

0
109
دیدہ و لب و رخسار کا ذکر
ہر سُو چلا مرے یار کا ذکر
صبح نَو شامِ غم شبِ تاریک
ہر پہر اس کی گفتار کا ذکر
ہے مری سوچ میں دنیا ساری
میری دنیا میں ہے پیار کا ذکر

0
93
غمِ ہستی سے کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
ترا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے دنیا بھی کیا دِکھتی ہو گی
بن ترے دنیا کا نظارہ کر لوں

0
111
لفظوں کی تجارت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
تجھ سے جو محبت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
وعدے وحدتوں کے تجھ سے مجھے نہیں کرنے
یہ جو اک حماقت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
اس انا کی قربانی یہ مجھے نہیں کرنا
خود میں جو ملاوٹ ہے یہ مجھے نہیں کرنی

94
حالاتِ ہجر نے کیا ہے اس سے روشناس
لمحاتِ وصل سے کیا حاصل حصول کیا
یہ قرب کی سمجھ فرقت میں ہے آئی اب
آغوشِ یار سے بڑھ کر ہے وصول کیا
ہمایوں

83
ہر سمت میں وہ چہرہ ہی کیوں ہے
تو ہے کہ یہ سب میرا جنوں ہے
بے چین وہ ہم کو کرتا تھا جو
آرام ہے وہ میرا سکوں ہے
ہمایوں

89
یہ فاصلوں کے فلسفے جدائیوں کے رتجگے
حسین رخِ زندگی یہ نم رتوں کے قہقہے
یہ آنسوؤں کی بارشیں یہ زیرِ لب شرارتیں
ملن کی یہ مسرتیں یہ فرقتوں کے سلسلے
گمان زندگی کا یہ امانِ زندگی ہے یہ
یہ ساماں زندگی کا ہے یہ زندگی کے وسوسے

0
198
نکل گیا کہیں بدلا سا یہ زماں
بدل گئی زمیں بدلا سا آسماں
کہاں ثبات ہے اور کس کو ہے یقیں
یہ مٹی کا بُت اور اتنا بڑا جہاں
ہے سب یہ زد پہ تغیر کا ہے جہاں
کہاں تلک بندھا ہے کون سا سماں

0
81
تیری آنکھوں کا وہ اشارہ کیا تھا
ڈوبا ہوں میں تو وہ کنارہ کیا تھا
آس پر گزری ہے شبِ ہجراں میری
تُو نہیں تھا تو وہ سہارا کیا تھا
شہر کی خاموشی میں آواز گونجی
تھا نہیں ماتم تو وہ نقارہ کیا تھا

0
88
ہونے نہ ہونے کا یہ سماں
چلا جا رہا ہے یہ جہاں
سامان و بے سر و ساماں
سمت کا ہے نہیں تعین اب
یہ تُو کہاں ہے ہوں میں کہاں
کیسے کروں میں تلاش یہاں

0
92
گنجل ہے عجب یہ مخمسہ ہے
یہ زندگی تو بس وسوسہ ہے
یہاں شام و سحر بس دعوے ہیں
آئینہ بس اک حادثہ ہے
یہاں شور یہ آمد و رخصت کا
ساکت سا بس یہ سلسلہ ہے

0
140
لفظوں کا بدل جذبات کمانے نکلا تھا
برسوں کے عوض لمحات کمانے نکلا تھا
امید نجانے تھی کیا اس سوچ کے آسماں پر
صحرا میں جب برسات کمانے نکلا تھا
آہ و فغاں نالہ و شور ہی بس ملا مجھ کو
میں محبت کے نغمات کمانے نکلا تھا

0
115
کھو دیا تجھ کو اگر تو میں کہاں جاؤں گا
میری اس منزل کا ایک نشان ہو تم
میرے لفظوں نے ہے پہنا معنی کا لباس
میری یہ سوچ مکیں ہے جہاں وہ مکان ہو تم
کیوں کروں فکر و اندیشے کے حوالے اسے
میری زمیں ہو میرا یقیں ہو جہان ہو تم

0
96
ہم نے کب مانگا ہے محبت میں سکوں
سوچیں بکھری ہوں اور ہو انتھاۓ جنوں
ہجر و فردا کے ہی ہوں غم حاصلِ زیست
بکھری ہو جاں آنکھ تر محبت کا فسوں
خواہش تری نے دکھایا یہ دن مجھ کو
حاصل درد و سوزِ جہانِ گوں مگوں

0
114
قرب و وصل کا ٹوٹا سرور تو کیا ہو گا
عشق نہ حسن پہ ہو معمور تو کیا ہو گا
تو حسیں ہے تو میرا عشق بھی تو یقیں ہے
شوق مرا ہو گیا کافور تو کیا ہو گا
ہم چاہت کے دوام کا آؤ عہد کریں
وقت کی گردش نے کیا دور تو کیا ہو گا

0
95
آؤ کر لیتے ہیں عہد و پیماں
یہ محبت رکھیں گے یوں ہی جواں
رہے قائم یوں ہی ملنے کی تڑپ
ہم میں حائل نہ رہے اک بھی گماں
رہے یہ شوق جواں تا دمِ مرگ
بعد از مرگ بھی ہو یہ عیاں

0
112
آخر تیرا غم کیا ہے
حجتِ چشمِ نم کیا ہے
تسخیرِ ہستیٔ ہے شرط
رازِ جہانِ الم کیا ہے
اوجھل گوہرِ لاثانی
پیارا خود سے صنم کیا ہے

0
109
تیرا یہ قرب اور تیرا یہ وصال جاناں
امید تیری یہ سوچ تیرا خیال جاناں
رک جائیں لمحے تیری آغوش کے یہ سارے
دل میں سدا رہے قید تیرا جمال جاناں
بارانِ لطف یہ برسے یوں ہمیشہ مجھ پر
قائم رہے سدا یوں تیرا کمال جاناں

0
83
تواتر سے ہم تو زندگی کو سوچتے رہے
کہاں گم تھی اور ہم کہاں پر کھوجتے رہے
ہمایوںؔ

0
4
148
تواتر سے زندگی تجھے ہم سوچتے رہے
کہاں گم تھی اور ہم کہاں پر کھوجتے رہے

0
94
لفظوں کے عوض جذبات کمانے نکلا تھا
برسوں کے بدل لمحات کمانے نکلا تھا
امید نجانے کیا تھی سوچ کی گھٹا سے
صحرا میں جب برسات کمانے نکلا تھا
آہ و فغاں نالہ و شور ہی بس ملا مجھ کو
میں محبت کے نغمات کمانے نکلا تھا

0
106
عذر ہوۓ غالب پابندی ملنے پر ہوٸ
عشق وہ جو منہ زور تھا مغلوب ہو گیا
مجھ کو نہ آٸ سمجھ ان تیری اداؤں کی
شخص جو تھا طالب کبھی مطلوب ہو گیا
دنیا نے سزا دی اسے جرمِ وفا کے لیۓ
زندہ تو وہ ہے گرچہ مصلوب ہو گیا

0
90
عذر ہوۓ غالب پابندی ملنے پر ہوٸ
عشق وہ جو منہ زور تھا مغلوب ہو گیا
مجھ کو نہ آٸ سمجھ ان تیری اداؤں کی
شخص جو تھا طالب کبھی مطلوب ہو گیا
دنیا نے سزا دی اسے جرمِ وفا کے لیۓ
زندہ تو وہ ہے گرچہ مصلوب ہو گیا

0
126