Circle Image

humayun raja

@azadraj

سنبھلتے کرتے سنبھل گیا میں
تری محبت میں ڈھل گیا میں
جلائے مجھ کو نہ آگ اب تو
کہ اتنی دفعہ جو جل گیا میں
کہ تجھ میں بسنا ہے لازم اب تو
کہ خود سے اب کے نکل گیا میں

0
6
دعائیں بت کہاں سنتے صدائیں بت کہاں سنتے
ہیں پتھر سے بنے سارے یہ آہیں بت کہاں سنتے
فقط یہ خود کو بہلانے کو ہے یہ کام بس اچھا
وگرنہ علم ہے ہم کو ندائیں بت کہاں سنتے
فقط یہ ظلم ہے جو خود پہ ہے ہم نے روا رکھا
یہ ہے اک خود کلامی سی وفائیں بت کہاں سنتے

0
5
پھر سے کوئی ترے پاس آ جائے گا
مجھ سے جانا تجھے راس آ جائے گا
جب کبھی تجھ سے میں دور ہو جاؤں گا
پھر تجھے میرا احساس آ جائے گا
دل سنبھالے نہ جو سنبھلے گا تیرا پھر
وقت ایسا کوئی خاص آ جائے گا

0
6
گلے شکوے شکایت ہے
یہ جو تیری محبت ہے
یہ تیری سوچ میں ہے کیوں
بری ہر میری عادت ہے
وہ میرا بولنا سننا
نقائص سے عبارت ہے

21
تُو مجھے چھوڑ گیا اپنی انا کی خاطر
رابطہ توڑ گیا مجھ سے جفا کی خاطر
کیسے رنگین رہا تجھ سے تعلق میرا
خونِ دل ہم نے دیا رنگِ حنا کی خاطر
وہ جو لاتی تھی تری خوشبو مرے آنگن میں
ہم نے وہ یاد رکھا بادِ صبا کی خاطر

12
ہم سے یہ ہو نہ سکا ایسی جسارت کرتے
لوگ دیکھے ہیں محبت میں تجارت کرتے
میری سوچوں کو جو بے ربط کیا ہے تم نے
میرے پاکیزہ خیالوں کو نہ غارت کرتے
سادگی نے مجھے اپنی ہے دکھایا یہ دن
ہم بھی منظورِ نظر ہوں جو شرارت کرتے

0
17
ساتھ تیرے جو میں سفر میں رہا
زندگی بھر میں اک پہر میں رہا
ہوش میں تو کبھی رہا ہی نہیں
جو رہا میں ترے سِحر میں رہا
شہرتیں بھی تو ہیں عجب سی یہاں
میں تو گمنام پر خبر میں رہا

0
16
عشق تیرے نے سنوارا مجھ کو
درد تیرا ہے سہارا مجھ کو
ہے ملاقات بھی دلکش تیری
ہجر تیرے نے نکھارا مجھ کو
زیر دشمن سے کہاں ہونا تھا
تیرے الفاظ نے مارا مجھ کو

0
13
طاق جو دل میں بنا کے رکھا ہے
درد کو ہم نے چھپا کے رکھا ہے
اندر اندر سے ہی ہے مارے ہمیں
زہر جو خود کو پلا کے رکھا ہے
تیرا جلنا نہیں مقصود ہمیں
آگ کو ہم نے بجھا کے رکھا ہے

0
11
مجھے اپنے تخیل میں جگہ کچھ دے کے دیکھو تم
بس الجھے میرے دھاگوں کو گرہ کچھ دے کے دیکھو تم
مرے اقرار کو اقرار اپنے سے ملا چھوڑو
مرے اس شوقِ الفت کا صلہ کچھ دے کے دیکھو تم
بدل دوں میں یہ سارے رہنے کے اطوار گر بولو
کسی بھی میری عادت کا گلہ کچھ دے کے دیکھو تم

0
24
آؤ دیکھو کہ بکھرتے ہیں کیسے
ہجر میں ترے ہم مرتے ہیں کیسے
تم کبھی ترے پروانوں کو دیکھو
تیرے شوق میں جلتے ہیں کیسے
تیرے عشق کی بس اوڑھ کے چادر
خارزاروں میں یہ چلتے ہیں کیسے

0
19
تم سے جو بات اب نہیں ہوتی
صبح کیا رات اب نہیں ہوتی
ملنا تیرا جو تھا قیامت تب
وہ ملاقات اب نہیں ہوتی
یہ تو دعویٰ فقط رہا تیرا
تو مرے ساتھ اب نہیں ہوتی

30
میرے سپنوں کا شیرازہ کر کے
مجھ کو ایسے ہی رہ لینے دے دو
اب نہ امید کوئی دو مجھ کو
غم جدائی کا سہہ لینے دے دو
میرے سینے میں جو پلتا ہے غم
اشک آنکھوں سے بہہ لینے دے دو

0
18
ہر سمت کھو چکی ہے نظر کچھ نہیں آتا
اب تیری محبت کا اثر کچھ نہیں آتا
پھر تیرا یہ احساس ہوا برف کا سا یوں
اب بجھ چکی جو آگ شرر کچھ نہیں آتا
ہر روز اک امید کا میں دیپ جلاؤں
ہر شام اداسی ہے جو گھر کچھ نہیں آتا

0
20
داستاں پھر کوئی اپنے سے عبارت کر لیں
پھر سے اک بار یوں تھوڑی سی شرارت کر لیں
پھر سے بنیاد محبت کی کہیں رکھ لیں ہم
پھر سے مل کر اسے ہم دونوں عمارت کر لیں
آؤ مل کر یوں بسا لیتے ہیں دنیا اپنی
عہد و پیمان کی یوں پھر سے جسارت کر لیں

0
34
اک تلخ حقیقت تھی بھلاتا بھی نہیں ہوں
پھر دیپ محبت کا جلاتا بھی نہیں ہوں
آغوش تری مجھ کو ستائے ہے اگرچہ
یادوں سے تری دور میں جاتا بھی نہیں ہوں
وہ دور ترے وصل کا آتا بھی نہیں ہے
اور ہجر کا میں ساز بجاتا بھی نہیں ہوں

0
25
تبدیل ہوا تیرا یہ اندازِ تخاطب
باتیں جو کرے مجھ سے نہیں تھا میں مخاطب
اس بار تو لگتا ہے ترا چھوڑنا مجھ کو
اس بار تو بدلے سے ہیں ہم سے یہ کواکب
ملتے رہے ہیں ہجر کے دکھ مجھ کو مسلسل
اس بار نہ لکھنا مری تقدیر میں کاتب

0
21
حادثوں کی دنیا میں حادثہ نہیں کوئی
ساتھ ہے ترا جاناں سانحہ نہیں کوئی
شام ہو سویرا ہو رات ہو اندھیرا ہو
موسموں کا ہم کو تو مسئلہ نہیں کوئی
ذائقہ کوئی بھی ہو شربتی سا لگتا ہے
تو نہ ہو مری جاں تو ذائقہ نہیں کوئی

0
21
اپنے غم سے میں کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
تیرا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے دنیا بھی کیسی ہو گی
بن ترے اس کا نظارہ کر لوں

0
21
کشتیاں ساری ہی اس پار کہیں چھوڑ آئے
تیرے ادوار سے نکلوں تو کوئی دور آئے
تیرا چہرہ ہی نظر آئے ہے ہر سو مجھ کو
تو مری سوچ سے نکلے تو کوئی اور آئے
زندگی میں تو کبھی سوچ نہیں سکتا میں
مری سوچوں میں ترے بعد کوئی موڑ آئے

0
9
لفظوں کی تجارت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
تجھ سے جو محبت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
وعدے وحدتوں کے تجھ سے مجھے نہیں کرنے
یہ جو اک حماقت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
اس انا کی قربانی یہ مجھے نہیں کرنا
خود میں جو ملاوٹ ہے یہ مجھے نہیں کرنی

0
22
الجھ الجھ کے سلجھ رہا ہوں
سلجھ کے میں پھر الجھ رہا ہوں
کبھی کنارا ملے گا مجھ کو
کوئی سہارا ملے گا مجھ کو
کوئی نظارہ ملے گا مجھ کو
مرا ستارہ ملے گا مجھ کو

0
27
ہم نے تو چھوڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا
واسطہ توڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا
کوئی امید میں تم سے نہیں رکھتا ہوں کیا
تم سے منہ موڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا
تیری یادوں کی لڑی توڑ چکا ہوں میں کیا
دل کہیں جوڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا

0
28
یہ فاصلوں کے فلسفے جدائیوں کے رتجگے
یہ زندگی کا حسن ہے یہ نم رتوں کے قہقہے
یہ آنسوؤں کی بارشیں یہ زیرِ لب شرارتیں
ملن کی یہ مسرتیں یہ فرقتوں کے سلسلے
گمان زندگی کا یہ امانِ زندگی ہے یہ
یہ ساماں زندگی کا ہے یہ زندگی کے وسوسے

0
29
ہم سے تم اب کوئی نہ آس رکھو
اپنے خوابوں کو اپنے پاس رکھو
تیری تفریق یہ ہے بے معنی
جسے چاہو جسے بھی خاص رکھو
اب یہ جچتا نہیں تجھے بس تُو
مجھ سے کوئی امید و یاس رکھو

0
20
تُو ساتھ تھا تو یہ معاملہ تھا
اُس قید میں آزاد سلسلہ تھا
اک خشک ٹہنی پر خزاں کی رُت میں
بیٹھی تھی بلبل پھول بھی کھلا تھا
خاموش رہ کر بھی بیاں ہو جاتا
لب بند تھے اظہار برملا تھا

0
17
تجھ سے ملنے کے بہانے ڈھونڈوں
کھو چکے جو وہ زمانے ڈھونڈوں
میری آنکھوں میں بسے تھے جو سب
ٹوٹے وہ خواب سہانے ڈھونڈوں
لمحے وہ قرب کے ہیں کھو گئے سب
گزرے وہ وقت پرانے ڈھونڈوں

0
17
ہم میں جھگڑے کی وجہ کچھ بھی نہیں
قربتوں نے بھی دیا کچھ بھی نہیں
تجھ سے جو دور تھا ایسا ہی تھا میں
تجھ سے مل کر بھی ملا کچھ بھی نہیں
اب تو یہ رسم ہے گفتار کی بس
تیرے میرے میں رہا کچھ بھی نہیں

0
17
مجھ پہ موسم کا اثر کچھ بھی نہیں
ہو نہ تیری تو خبر کچھ بھی نہیں
میرے آنگن کی مہک تیرے سبب
نہیں ہے تُو تو یہ گھر کچھ بھی نہیں
بن ترے وقت گزرنا بھی عجب
شب جو گزرے بھی سحر کچھ بھی نہیں

0
17
مجھ سے نا ملنے کے وعدے پہ تو قائم رہنا
کون سے رشتے کو میسر یہاں دائم رہنا
تو نے بھی مجھ سے محبت جو کی شرطوں شرطوں
تم نے سیکھا ہے کہاں مجھ سے یوں باہم رہنا
تیری اغراض سے تھی مجھ کو غرض کیا ہونی
تیری الفت سے جڑا مجھ کو تھا تاہم رہنا

0
17
شاید وہ میرے شوق کی شدت نہیں رہی
جو اس کو اب وہ ہم سے محبت نہیں رہی
میرا ہی وسوسہ تھا جو اب سچ سا ہو گیا
اس کی اداؤں میں تو وہ چاہت نہیں رہی
میں ڈوب چکا جو ترے دریا میں اس قدر
ساحل کو دیکھنے کی تو جرات نہیں رہی

0
15
تحقیرِ محبت ہے اگر ضبط نہیں ہے
عجلت کا محبت سے تو کچھ ربط نہیں ہے
بنیاد میں تیرے ہو نہ اکرام کا عنصر
تو اور کیا ہے یہ اگر خبط نہیں ہے
دل دے چکے ہیں ان کو تو آوارگی میں ہم
انکار پہ راضی تو یہ کمبخت نہیں ہے

0
20
میں قلب و جاں کا اب تو قرار چاہتا ہوں
میں خودستائشی سے فرار چاہتا ہوں
یہ سوچ کی جو گردش ہے خود کے دائرے میں
خیال پر میں اپنے نکھار چاہتا ہوں
تُو اور میں کی باتیں عجیب تر ہیں یہ سب
میں تُو ہی تُو کا تو اب شرار چاہتا ہوں

0
17
اے زندگی تو مل مجھے ہے کیوں یونہی رکی ہوئی
اگل بھی دے وہ راز بھی وہ بات بھی چھپی ہوئی
میں دیکھ لوں یہ رخ ترا میں بات کو سمجھ تو لوں
اٹھا سکوں میں وہ نظر جو کب سے ہے جھکی ہوئی
اے زندگی قریب آ نہ دور جا مجھے دکھا
وہ لذتیں خوشی کی سب وہ سوچ بھی دکھی ہوئی

0
24
جا رہا ہے کس طرف زندگی کا یہ سفر
خود کو جان پایا میں نہ رکھ سکا تری خبر
کیا عجب ہے سلسلہ ہر کڑی الگ الگ
وقت یہ ہے مختصر آج اِدھر تو کل اُدھر
ضبط و خبط کا مزہ کھو چکے ہیں ہم تو اب
خار میں چبھن نہیں پھول بھی ہیں بے اثر

0
19
آنکھوں میں جو بادل ہے برستا بھی نہیں ہے
سانسوں کا جو آنچل ہے سرکتا بھی نہیں ہے
کس آگ میں جھونکا ہے تری دید نے مجھکو
یہ وقت رکا ہے کہ گزرتا بھی نہیں ہے
اب رقص میں رہتی ہے تری سوچ مرے میں
فرقت کا دیا اب کہیں جلتا بھی نہیں ہے

2
31
تشہیرِ تعلق نے دیا کچھ بھی نہیں ہے
اک درد سا ہے اور ملا کچھ بھی نہیں ہے
اس سوچ میں رہتا تھا تلاطم جو ہمیشہ
وہ سوچ بیاباں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
چلتا رہا ہوں اک ترے جو خواب کے پیچھے
وہ خواب ہی تھا اور صلہ کچھ بھی نہیں ہے

0
16
تنہائیوں کے ڈر سے تنہا رہا ہوں میں
ان چاہتوں کے در سے سہما رہا ہوں میں
بنتا رہا ہوں گنجل سوچوں کی راہ پر
ان عادتوں میں اپنی سادہ رہا ہوں میں
موجوں کو سر اٹھانے کی حسرتیں رہیں
جذبوں میں اس طرح سے پنہاں رہا ہوں میں

0
20
زادِ راہ جو تھا وہ سب قلیل کر دیا
عشق نے تو درد میرا طویل کر دیا
اجنبی تھا ہمسفر زندگی کی راہ میں
وقت نے وہ شخص میرا کفیل کر دیا
وصل کے جو لمحے تھے ہو گئے ہیں خواب سب
مجھ کو تیرے ہجر نے اب علیل کر دیا

0
20
رازِ دل مجھ کو وہ اب ایسے بتانے آئے
جیسے احسان کوئی مجھ کو جتانے آئے
خواب کی طرح گزرتے ہیں شب و روز اپنے
اس جہاں میں تو کیا خواب کمانے آئے
پھر کبھی اس نے تکلم نہ کیا تھا مجھ سے
وہی اک بار جو دل کو یوں جلانے آئے

0
13
پکار وہ تڑپ جواں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ چاہتوں کی داستاں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ خواب تھا خیال تھا کہ خوشنما سا جال تھا
لگن تھی وہ جو جانِ جاں کہاں چلی گئی ہے سب
سخن ترا تھا اک کمال لازوال ادا تری
وہ اب یہاں تو اب وہاں کہاں چلی گئی ہے سب

0
21
تم سے ملنا کبھی اتنا بھی تو دشوار نہ تھا
جیسا اب ہوں کبھی اتنا بھی تو بیمار نہ تھا
میرے ایام گزرتے ہیں اذیت میں ہی کیوں
زندگی سے کبھی ایسے بھی تو دوچار نہ تھا
کیسے فرقت کے شب و روز جو گم ہو گئے سب
اس جدائی کے لئے میں بھی تو تیار نہ تھا

0
12
وہ میرے خدوخال کے نشان مٹ گئے
مکین مٹ گئے اور اب مکان مٹ گئے
وہ دھول میں چھپی ہوئی ہے میری ذات تو
وہ تھے جو اپنے سارے قدر دان مٹ گئے
جو چھوڑ کر چلے گئے ہو کس کے آسرے
وہ تجھ پہ جو کئے تھے سب ہی مان مٹ گئے

0
24
عشق میں فناء کا انتخاب کر لیا
ناخدا کے قرب سے اجتناب کر لیا
پھر کسی سراب کی سمت میں نہ جاؤں گا
عہد تجھ سے دوریوں کا جناب کر لیا
عہد و پیماں ڈھارسیں یہ تکلفات ہیں
کیوں وفا کے جرم کا ارتکاب کر لیا

0
24
دل کا یہ حال میں اب تم پہ عیاں کیسے کروں
اپنے لفظوں کو میں اب شعلہ بیاں کیسے کروں
تیرے اطوار نے پتھر سا بنایا ہے مجھے
میرے آنگن سے میں پھولوں کا گماں کیسے کروں
یہ جو پہروں تری یادوں نے رلایا ہے مجھے
تیری سوچوں کی میں تدفین کہاں کیسے کروں

0
13
وہ طلب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے
جاں بلب میری جو تھی وہ اب بھی ہے
بھول سکتا ہوں میں کیسے تجھ کو اب
تو سبب جینے کا تھی وہ اب بھی ہے
تیری شرطوں پر محبت کیا کروں
میری شب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے

0
15
وہ ربط جو تھا سانس کا وہ ربط بھی گنوا دیا
وہ تم نے میرے شوق کا ہر آشیاں جلا دیا
وہ لفظ اب نہیں رہے وہ بات بھی نہیں رہی
بیان کا وہ راستہ تو تم نے اب مٹا دیا
وہ تیرے آنے سے مجھے جو مل گئی تھی روشنی
وہ تُو گیا تو کیا گیا وہ دیپ بھی بجھا دیا

0
20
وہ منزلیں کہاں پہ ہیں وہ راستے کدھر گئے
یوں ڈھونڈتے تجھے رہے جہاں جہاں جدھر گئے
ؤہ ہم تو تیری سوچ میں لگے رہے ہیں روز و شب
یہ لوگ کہتے ہیں ہمیں کہ اب کے ہم سدھر گئے
یہ تم کو دے جو بھی خبر یہ زلف کی بے چینیاں
یوں رہ کے تیری یاد میں قدم قدم نکھر گئے

0
25
آنکھوں میں میری نیند نہ آئے ہے رات بھر
بس یاد تیری مجھ کو ستائے ہے رات بھر
جادو سا تیری مست نگاہی نے کر دیا
سانسوں میں تیری خوشبو جگائے ہے رات بھر
کل ہاتھ میرے ہاتھ پہ تھا رکھ دیا تو نے
اب لمس تیرے ہاتھ کا آئے ہے رات بھر

0
21
بخت اپنے ہیں کہاں تجھ کو یوں پانے والے
زیست کے دکھ ہیں کہ اندر سے جلانے والے
کیسے بکھرا ہے خیالوں کا تسلسل میرا
کیسے سب چھوڑ گئے ساتھ نبھانے والے
اپنے دامن میں ہے کانٹوں کا بسیرا اب تو
ہو گئے اب وہ جدا باغ لگانے والے

0
18
اس ہجر میں وہ ہجر کا سا وہ مزا نہیں
ملنی جو تھی وہ عشق میں یہ وہ سزا نہیں
اب دوریاں بھی مجھ کو تو بے تاب نا کریں
اب ملنے کی بھی دیتا ہوں تجھ کو صدا نہیں
احساس تیرے ہونے کا اب ہے نہیں مجھے
چہرے سے تیرے میری محبت بھی وا نہیں

0
17
وہ تری برسات اب نہیں ہوتی
تجھ سے ملاقات اب نہیں ہوتی
گفتگو تجھ سے ہوتی ہے میری
ویسے کوئی بات اب نہیں ہوتی
تیرا تخیل ہوتا تھا شب بھر
ویسی کوئی رات اب نہیں ہوتی

0
24
یہ مرے شہر ہوئے شہرِ خموشاں
نہ بچا گل نہ رہا کوئی گلستاں
وہ ترا عہدِ حسیں جو ہو گیا گم
نہ ترا وصل نہ کوئی شبِ ہجراں
نہ وہ راتوں کی طوالت وہ مرا غم
نہ مری آنکھ نہ آنسو نہ دل و جاں

0
14
میں بھی نکلا تھا کہیں عشق کمانے کے لئے
دل کے آنگن میں کوئی دیپ جلانے کے لئے
ہو گئے اب وہ پرانے جو ملے زخم مجھے
پھر سے تیار ہوں میں دوست بنانے کے لئے
کر دو افکار کی ترتیب سے بیگانہ مجھے
دل میں اک سوز کہیں پھر سے جگانے کے لیے

0
30
بات ایسی تو نہ تھی تم نے بڑھائی جیسے
ایسا کب کرتے ہیں تم نے جو نبھائی جیسے
تم مرے شوق کی تحقیر کئے جاتے ہو
پیار کی ہم سے کراتے ہو گدائی جیسے
تیری ہر بات کا احساس رہا ہے مجھ کو
میری ہر بات کہ لگتی ہو پرائی جیسے

0
27
بات ایسی تو نہ تھی تم نے بڑھائی جیسے
ایسا کب کرتے ہیں تم نے جو نبھائی جیسے
تم مرے شوق کی تحقیر کئے جاتے ہو
پیار کی ہم سے کراتے ہو گدائی جیسے
تیری ہر بات کا احساس رہا ہے مجھ کو
میری ہر بات کہ لگتی ہو پرائی جیسے

0
24
بات ایسی تو نہ تھی تم نے بڑھائی جیسے
ایسا کب کرتے ہیں تم نے جو نبھائی جیسے
تم مرے شوق کی تحقیر کئے جاتے ہو
پیار کی ہم سے کراتے ہو گدائی جیسے
تیری ہر بات کا احساس رہا ہے مجھ کو
میری ہر بات کہ لگتی ہو پرائی جیسے

0
35
یہ مرے شہر ہوئے شہرِ خموشاں
نہ بچا گل نہ رہا کوئی گلستاں
وہ ترا عہدِ حسیں جو ہو گیا گم
نہ ترا وصل نہ کوئی شبِ ہجراں
نہ وہ راتوں کی طوالت وہ مرا غم
نہ مری آنکھ نہ آنسو نہ دل و جاں

0
28
وہ تری برسات اب نہیں ہوتی
تجھ سے ملاقات اب نہیں ہوتی
گفتگو تجھ سے ہوتی ہے میری
ویسے کوئی بات اب نہیں ہوتی
تیرا تخیل ہوتا تھا شب بھر
ویسی کوئی رات اب نہیں ہوتی

30
اس ہجر میں وہ ہجر کا سا وہ مزا نہیں
ملنی جو تھی وہ عشق میں یہ وہ سزا نہیں
اب دوریاں بھی مجھ کو تو بے تاب نا کریں
اب ملنے کی بھی دیتا ہوں تجھ کو صدا نہیں
احساس تیرے ہونے کا اب ہے نہیں مجھے
چہرے سے تیرے میری محبت بھی وا نہیں

0
33
بخت اپنے ہیں کہاں تجھ کو یوں پانے والے
زیست کے دکھ ہیں کہ اندر سے جلانے والے
کیسے بکھرا ہے خیالوں کا تسلسل میرا
کیسے سب چھوڑ گئے ساتھ نبھانے والے
اپنے دامن میں ہے کانٹوں کا بسیرا اب تو
ہو گئے اب وہ جدا باغ لگانے والے

0
27
آنکھوں میں میری نیند نہ آئے ہے رات بھر
بس یاد تیری مجھ کو ستائے ہے رات بھر
جادو سا تیری مست نگاہی نے کر دیا
سانسوں میں تیری خوشبو جگائے ہے رات بھر
کل ہاتھ میرے ہاتھ پہ تھا رکھ دیا تو نے
اب لمس تیرے ہاتھ کا آئے ہے رات بھر

32
وہ منزلیں کہاں پہ ہیں وہ راستے کدھر گئے
یوں ڈھونڈتے تجھے رہے جہاں جہاں جدھر گئے
ؤہ ہم تو تیری سوچ میں لگے رہے ہیں روز و شب
یہ لوگ کہتے ہیں ہمیں کہ اب کے ہم سدھر گئے
یہ تم کو دے جو بھی خبر یہ زلف کی بے چینیاں
یوں رہ کے تیری یاد میں قدم قدم نکھر گئے

49
وہ ربط جو تھا سانس کا وہ ربط بھی گنوا دیا
وہ تم نے میرے شوق کا ہر آشیاں جلا دیا
وہ لفظ اب نہیں رہے وہ بات بھی نہیں رہی
بیان کا وہ راستہ تو تم نے اب مٹا دیا
وہ تیرے آنے سے مجھے جو مل گئی تھی روشنی
وہ تُو گیا تو کیا گیا وہ دیپ بھی بجھا دیا

43
وہ طلب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے
جاں بلب میری جو تھی وہ اب بھی ہے
بھول سکتا ہوں میں کیسے تجھ کو اب
تو سبب جینے کا تھی وہ اب بھی ہے
تیری شرطوں پر محبت کیا کروں
میری شب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے

0
25
دل کا یہ حال میں اب تم پہ عیاں کیسے کروں
اپنے لفظوں کو میں اب شعلہ بیاں کیسے کروں
تیرے اطوار نے ہے مجھ کو بنایا پتھر
میرے آنگن سے میں پھولوں کا گماں کیسے کروں
تیری یادوں نے کیا ہے کیا حالِ دل اب
تیری سوچوں کی میں تدفین کہاں کیسے کروں

0
36
دل کا یہ حال میں اب تم پہ عیاں کیسے کروں
اپنے لفظوں کو میں اب شعلہ بیاں کیسے کروں
تیرے اطوار نے ہے مجھ کو بنایا پتھر
میرے آنگن سے میں پھولوں کا گماں کیسے کروں
تیری یادوں نے کیا ہے کیا حالِ دل اب
تیری سوچوں کی میں تدفین کہاں کیسے کروں

38
عشق میں فناء کا انتخاب کر لیا
ناخدا کے قرب سے اجتناب کر لیا
پھر کسی سراب کی سمت میں نہ جاؤں گا
عہد تجھ سے دوریوں کا جناب کر لیا
عہد و پیماں ڈھارسیں یہ تکلفات ہیں
کیوں وفا کے جرم کا ارتکاب کر لیا

0
57
عشق میں فناء کا انتخاب کر لیا
ناخدا کے قرب سے اجتناب کر لیا
پھر کسی سراب کی سمت میں نہ جاؤں گا
عہد تجھ سے دوریوں کا جناب کر لیا
عہد و پیماں ڈھارسیں یہ تکلفات ہیں
کیوں وفا کے جرم کا ارتکاب کر لیا

0
38
وہ میرے خدوخال کے نشان مٹ گئے
مکین مٹ گئے اور اب مکان مٹ گئے
وہ دھول میں چھپی ہوئی ہے میری ذات تو
وہ تھے جو اپنے سارے قدر دان مٹ گئے
جو چھوڑ کر چلے گئے ہو کس کے آسرے
وہ تجھ پہ جو کئے تھے سب ہی مان مٹ گئے

0
44
تم سے ملنا کبھی اتنا بھی تو دشوار نہ تھا
جیسا اب ہوں کبھی اتنا بھی تو بیمار نہ تھا
میرے ایام گزرتے ہیں اذیت میں ہی کیوں
زندگی سے کبھی ایسے بھی تو دوچار نہ تھا
کیسے فرقت کے شب و روز جو گم ہو گئے سب
اس جدائی کے لئے میں بھی تو تیار نہ تھا

0
31
پکار وہ تڑپ جواں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ چاہتوں کی داستاں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ خواب تھا خیال تھا کہ خوشنما سا جال تھا
لگن تھی وہ جو جانِ جاں کہاں چلی گئی ہے سب
سخن ترا تھا اک کمال لازوال ادا تری
وہ اب یہاں تو اب وہاں کہاں چلی گئی ہے سب

0
40
رازِ دل مجھ کو وہ اب ایسے بتانے آئے
جیسے احسان کوئی مجھ کو جتانے آئے
خواب کی طرح گزرتے ہیں شب و روز اپنے
اس جہاں میں تو کیا خواب کمانے آئے
پھر کبھی اس نے تکلم نہ کیا تھا مجھ سے
وہی اک بار جو دل کو کبھی بہلانے آئے

0
34
بے تیر کماں ہوتا گر تم نہیں ہوتے
عبرت کا نشاں ہوتا گر تم نہیں ہوتے
آنکھوں سے تری دیکھوں ہنگامہِ فردا
یہ کیسا جہاں ہوتا گر تم نہیں ہوتے
جس طرح جمی ہو کوئی برف مرے پر
ویسا یہ گماں ہوتا گر تم نہیں ہوتے

0
57
زادِ راہ جو تھا وہ سب قلیل کر دیا
عشق نے تو درد میرا طویل کر دیا
اجنبی تھا ہمسفر زندگی کی راہ میں
وقت نے وہ شخص میرا کفیل کر دیا
وصل کے جو لمحے تھے ہو گئے ہیں خواب سب
مجھ کو تیرے ہجر نے اب علیل کر دیا

61
تنہائیوں کے ڈر سے تنہا رہا ہوں میں
ان چاہتوں کے در سے سہما رہا ہوں میں
بنتا رہا ہوں گنجل سوچوں کی راہ پر
ان عادتوں میں اپنی سادہ رہا ہوں میں
موجوں کو سر اٹھانے کی حسرتیں رہیں
جذبوں میں اس طرح سے پنہاں رہا ہوں میں

0
35
تشہیرِ تعلق نے دیا کچھ بھی نہیں ہے
اک درد سا ہے اور ملا کچھ بھی نہیں ہے
اس سوچ میں رہتا تھا تلاطم جو ہمیشہ
وہ سوچ بیاباں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
چلتا رہا ہوں اک ترے جو خواب کے پیچھے
وہ خواب ہی تھا اور صلہ کچھ بھی نہیں ہے

0
52
آنکھوں میں جو بادل ہے برستا بھی نہیں ہے
سانسوں کا جو آنچل ہے سرکتا بھی نہیں ہے
کس آگ میں جھونکا ہے تری دید نے مجھکو
یہ وقت رکا ہے کہ گزرتا بھی نہیں ہے
اب رقص میں رہتی ہے تری سوچ مرے میں
فرقت کا دیا اب کہیں جلتا بھی نہیں ہے

0
41
مجھ پہ موسم کا اثر کچھ بھی نہیں
ہو نہ تیری تو خبر کچھ بھی نہیں
تیری چاہت سے کھِلا آنگن یہ
نہیں ہے تُو تو یہ گھر کچھ بھی نہیں
تو نہ ہو تو مرا مقصد کیا ہے
شب جو گزرے بھی سحر کچھ بھی نہیں

0
52
ہم میں جھگڑے کی وجہ کچھ بھی نہیں
قربتوں نے بھی دیا کچھ بھی نہیں
دور تھا تجھ سے تو ایسا ہی تھا
تجھ سے مل کر بھی ملا کچھ بھی نہیں
ہم نے تو لاکھ بتایا تجھ کو
تیرے میرے میں رہا کچھ بھی نہیں

0
62
جا رہا ہے کس طرف زندگی کا یہ سفر
جان پایا خود کو میں نہ رکھ سکا تری خبر
کیا عجب ہے سلسلہ ہر کڑی الگ الگ
وقت یہ ہے مختصر آج اِدھر تو کل اُدھر
ضبط و خبط کا مزہ کھو چکے ہیں ہم تو اب
خار میں چبھن نہیں پھول بھی ہیں بے اثر

0
36
چاندنی میں یہ اندھیرا سا کیوں ہوتا ہے
گر نہیں میرا تو میرا سا کیوں ہوتا ہے
رتجگی نیم وا آنکھوں میں آ جائے جب
رات کے وقت سویرا سا کیوں ہوتا ہے
ساتھ تو تیرا جو رہتا ہے ہر دم ہر سو
گر نہیں ہے تو وہ تیرا سا کیوں ہوتا ہے

0
87
اے زندگی تو مل مجھے ہے کیوں یونہی رکی ہوئی
اگل بھی دے وہ راز بھی وہ بات بھی چھپی ہوئی
میں دیکھ لوں یہ رخ ترا میں بات کو سمجھ تو لوں
اٹھا سکوں میں وہ نظر جو کب سے ہے جھکی ہوئی
اے زندگی قریب آ نہ دور جا مجھے دکھا
وہ لذتیں خوشی کی سب وہ سوچ بھی دکھی ہوئی

0
72
تجھ سے ملنے کے بہانے ڈھونڈوں
کھو چکے جو وہ زمانے ڈھونڈوں
میری آنکھوں میں بسے تھے جو سب
ٹوٹے وہ خواب سہانے ڈھونڈوں
گم ہوئی وہ جو مری ساعتِ قرب
گزرے وہ وقت پرانے ڈھونڈوں

43
کشتیاں ساری ہی اس پار کہیں چھوڑ آئے
تیرے ادوار سے نکلوں تو کوئی دور آئے
مجھ کو معلوم نہیں ہے کوئی دنیا ترے بن
تو مری سوچ سے نکلے تو کوئی اور آئے
میں نے سوچا بھی نہیں اور یہ ممکن بھی نہیں
مری سوچوں میں ترے بعد کوئی موڑ آئے

0
51
مجھ سے نا ملنے کے وعدے پہ تو قائم رہنا
کون سے رشتے کو میسر یہاں دائم رہنا
تو بھی منسوب رہا مجھ سے شرائط کے عوض
تم نے سیکھا ہے کہاں مجھ سے یوں باہم رہنا
تیری اغراض سے تھی مجھ کو غرض کیا ہونی
تیری الفت سے جڑا مجھ کو تھا تاہم رہنا

0
64
میں قلب و جاں کا اب تو قرار چاہتا ہوں
میں خودستائشی سے فرار چاہتا ہوں
یہ گردشیں ہیں خود کے جو دائروں میں سب
خیال پر میں اپنے نکھار چاہتا ہوں
تُو اور میں کی باتیں عجیب تر ہیں یہ سب
میں تُو ہی تُو کا تو اب شرار چاہتا ہوں

0
52
تحقیرِ محبت ہے اگر ضبط نہیں ہے
عجلت کا محبت سے تو کچھ ربط نہیں ہے
بنیاد میں تیرے ہو نہ اکرام کا عنصر
بس اور کیا ہے یہ گر یہ خبط نہیں ہے
دل دے چکے ان کو نادانستگی میں ہم
انکار پہ راضی یہ کمبخت نہیں ہے

0
99
شاید وہ میرے شوق کی شدت نہیں رہی
جو اس کو اب وہ ہم سے محبت نہیں رہی
میرا ہی وسوسہ تھا جو اب سچ سا ہو گیا
اس کی اداؤں میں تو وہ چاہت نہیں رہی
میں ڈوب چکا جو ترے دریا میں اس قدر
ساحل کو دیکھنے کی تو جرات نہیں رہی

0
38
تُو ساتھ تھا تو یہ معاملہ تھا
اُس قید میں آزاد سلسلہ تھا
اک خشک ٹہنی پر خزاں کی رُت میں
بیٹھی تھی بلبل پھول بھی کھلا تھا
خاموش رہ کر بھی بیاں ہو جاتا
لب بند تھے اظہار برملا تھا

0
40
چاہ سے ہم فناہ تک پہنچے
یہ مرض اب دعا تک پہنچے
منتظرِ منزل ہوں میں
تیرگی انتھا تک پہنچے
تیرا وصل نہیں مقصود
عشق اب جزا تک پہنچے

0
80
تیری نظر میں نشہ ہے تری باتوں میں ہے نشہ
صبحوں میں نشہ ہے تری راتوں میں ہے نشہ
شامیں جو ہیں معطر تیری یادوں سے میری
خلوت میں نشہ ہے ملاقاتوں میں ہے نشہ
کھل کے بیاں ہوتا ہے احوالِ قرب و وصل
یہ عقدہ کھل چکا کہ چاہتوں میں ہے نشہ

0
89
تیری نظر میں نشہ ہے تری باتوں میں ہے نشہ
صبحوں میں نشہ ہے تری راتوں میں ہے نشہ
شامیں جو ہیں معطر تیری یادوں سے میری
خلوت میں نشہ ہے ملاقاتوں میں ہے نشہ
کھل کے بیاں ہوتا ہے احوالِ قرب و وصل
یہ عقدہ کھل چکا کہ چاہتوں میں ہے نشہ

0
45
ترکِ تعلق
غمِ ہستی سے کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
ترا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے دنیا بھی کیا دِکھتی ہو گی

0
119
میرے ہونے سے کوئی فرق اگر نہیں پڑتا
تم مجھے کھونے کا بھی ویسے تجربہ کر لے
میرے اندیشوں کو یقیں کا لبادہ دے کر
میرے بغیر ہی زندگی کا تُو تہیہ کر لے
تیری ضرورت سے میں گر یوں زیادہ ہوں تو
بس کسی اور کے نام مجھے تُو عطیہ کر لے

0
2
96
فرصت کے لمحات میں فرصت نہیں ملی
اے زندگی تجھ سے بھی قربت نہیں ملی
گزرے ماہ و سال کسی کے لیے ہی جو
گزرے یوں سب ایام کی اجرت نہیں ملی
بسرے ہوئے لمحات کو سنبھال تو لیں ہم
جس طرح سے ملنی تھی وہ شہرت نہیں ملی

0
97
تم مجھے ٹُوٹ کے چاہنے کی بس اجازت دے دو
یارا خود میں بس جانے کی اجازت دے دو
ترتیب اپنی سے تم مجھ کو بھی مرتب کر دو
خود کی دنیا میں آ جانے کی اجازت دے دو
میسر قربِ یار کی اک ساعت ہی ہو جائے
مے نہ دو بس مے خانے کی ہی اجازت دے دو

0
2
130
گر گیا میں تو اٹھانے کون آیا
چل پڑا میں تو گرانے کون آیا
زیست میں شامل ہوا جب سے ترا عشق
نغمہِ غم پھر سنانے کون آیا
تجھ کو منانے کی تگ و دو تھا کرتا
روٹھا جب میں تو منانے کون آیا

0
74
گر گیا میں تو اٹھانے کون آیا
چل پڑا میں تو گرانے کون آیا
زیست میں شامل ہوا جب سے ترا عشق
نغمہِ غم پھر سنانے کون آیا
ہمایوں

0
66
برگِ تر کیوں سوکھنے کے بہانے مانگے
جب وہ شخص بھی روٹھنے کے بہانے مانگے
ترکِ خیال پر اسکو کمال ہے سنا ہے
حال ان کا من پوچھنے کے بہانے مانگے
لاکھ بھلانے کی ان کو سعی کر لوں میں
سوچ ان کو بس سوچنے کے بہانے مانگے

0
79
دیدہ و لب و رخسار کا ذکر
ہر سُو چلا مرے یار کا ذکر
صبح نَو شامِ غم شبِ تاریک
ہر پہر اس کی گفتار کا ذکر
ہے مری سوچ میں دنیا ساری
میری دنیا میں ہے پیار کا ذکر

0
73
غمِ ہستی سے کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
ترا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے دنیا بھی کیا دِکھتی ہو گی
بن ترے دنیا کا نظارہ کر لوں

0
84
لفظوں کی تجارت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
تجھ سے جو محبت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
وعدے وحدتوں کے تجھ سے مجھے نہیں کرنے
یہ جو اک حماقت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
اس انا کی قربانی یہ مجھے نہیں کرنا
خود میں جو ملاوٹ ہے یہ مجھے نہیں کرنی

76
حالاتِ ہجر نے کیا ہے اس سے روشناس
لمحاتِ وصل سے کیا حاصل حصول کیا
یہ قرب کی سمجھ فرقت میں ہے آئی اب
آغوشِ یار سے بڑھ کر ہے وصول کیا
ہمایوں

56
ہر سمت میں وہ چہرہ ہی کیوں ہے
تو ہے کہ یہ سب میرا جنوں ہے
بے چین وہ ہم کو کرتا تھا جو
آرام ہے وہ میرا سکوں ہے
ہمایوں

60
یہ فاصلوں کے فلسفے جدائیوں کے رتجگے
حسین رخِ زندگی یہ نم رتوں کے قہقہے
یہ آنسوؤں کی بارشیں یہ زیرِ لب شرارتیں
ملن کی یہ مسرتیں یہ فرقتوں کے سلسلے
گمان زندگی کا یہ امانِ زندگی ہے یہ
یہ ساماں زندگی کا ہے یہ زندگی کے وسوسے

0
178
نکل گیا کہیں بدلا سا یہ زماں
بدل گئی زمیں بدلا سا آسماں
کہاں ثبات ہے اور کس کو ہے یقیں
یہ مٹی کا بُت اور اتنا بڑا جہاں
ہے سب یہ زد پہ تغیر کا ہے جہاں
کہاں تلک بندھا ہے کون سا سماں

0
69
تیری آنکھوں کا وہ اشارہ کیا تھا
ڈوبا ہوں میں تو وہ کنارہ کیا تھا
آس پر گزری ہے شبِ ہجراں میری
تُو نہیں تھا تو وہ سہارا کیا تھا
شہر کی خاموشی میں آواز گونجی
تھا نہیں ماتم تو وہ نقارہ کیا تھا

0
69
ہونے نہ ہونے کا یہ سماں
چلا جا رہا ہے یہ جہاں
سامان و بے سر و ساماں
سمت کا ہے نہیں تعین اب
یہ تُو کہاں ہے ہوں میں کہاں
کیسے کروں میں تلاش یہاں

0
72
گنجل ہے عجب یہ مخمسہ ہے
یہ زندگی تو بس وسوسہ ہے
یہاں شام و سحر بس دعوے ہیں
آئینہ بس اک حادثہ ہے
یہاں شور یہ آمد و رخصت کا
ساکت سا بس یہ سلسلہ ہے

0
112
لفظوں کا بدل جذبات کمانے نکلا تھا
برسوں کے عوض لمحات کمانے نکلا تھا
امید نجانے تھی کیا اس سوچ کے آسماں پر
صحرا میں جب برسات کمانے نکلا تھا
آہ و فغاں نالہ و شور ہی بس ملا مجھ کو
میں محبت کے نغمات کمانے نکلا تھا

0
97
کھو دیا تجھ کو اگر تو میں کہاں جاؤں گا
میری اس منزل کا ایک نشان ہو تم
میرے لفظوں نے ہے پہنا معنی کا لباس
میری یہ سوچ مکیں ہے جہاں وہ مکان ہو تم
کیوں کروں فکر و اندیشے کے حوالے اسے
میری زمیں ہو میرا یقیں ہو جہان ہو تم

0
76
ہم نے کب مانگا ہے محبت میں سکوں
سوچیں بکھری ہوں اور ہو انتھاۓ جنوں
ہجر و فردا کے ہی ہوں غم حاصلِ زیست
بکھری ہو جاں آنکھ تر محبت کا فسوں
خواہش تری نے دکھایا یہ دن مجھ کو
حاصل درد و سوزِ جہانِ گوں مگوں

0
94
قرب و وصل کا ٹوٹا سرور تو کیا ہو گا
عشق نہ حسن پہ ہو معمور تو کیا ہو گا
تو حسیں ہے تو میرا عشق بھی تو یقیں ہے
شوق مرا ہو گیا کافور تو کیا ہو گا
ہم چاہت کے دوام کا آؤ عہد کریں
وقت کی گردش نے کیا دور تو کیا ہو گا

0
80
آؤ کر لیتے ہیں عہد و پیماں
یہ محبت رکھیں گے یوں ہی جواں
رہے قائم یوں ہی ملنے کی تڑپ
ہم میں حائل نہ رہے اک بھی گماں
رہے یہ شوق جواں تا دمِ مرگ
بعد از مرگ بھی ہو یہ عیاں

0
79
آخر تیرا غم کیا ہے
حجتِ چشمِ نم کیا ہے
تسخیرِ ہستیٔ ہے شرط
رازِ جہانِ الم کیا ہے
اوجھل گوہرِ لاثانی
پیارا خود سے صنم کیا ہے

0
87
تیرا یہ قرب اور تیرا یہ وصال جاناں
امید تیری یہ سوچ تیرا خیال جاناں
رک جائیں لمحے تیری آغوش کے یہ سارے
دل میں سدا رہے قید تیرا جمال جاناں
بارانِ لطف یہ برسے یوں ہمیشہ مجھ پر
قائم رہے سدا یوں تیرا کمال جاناں

0
64
تواتر سے ہم تو زندگی کو سوچتے رہے
کہاں گم تھی اور ہم کہاں پر کھوجتے رہے
ہمایوںؔ

0
4
115
تواتر سے زندگی تجھے ہم سوچتے رہے
کہاں گم تھی اور ہم کہاں پر کھوجتے رہے

0
78
لفظوں کے عوض جذبات کمانے نکلا تھا
برسوں کے بدل لمحات کمانے نکلا تھا
امید نجانے کیا تھی سوچ کی گھٹا سے
صحرا میں جب برسات کمانے نکلا تھا
آہ و فغاں نالہ و شور ہی بس ملا مجھ کو
میں محبت کے نغمات کمانے نکلا تھا

0
86
عذر ہوۓ غالب پابندی ملنے پر ہوٸ
عشق وہ جو منہ زور تھا مغلوب ہو گیا
مجھ کو نہ آٸ سمجھ ان تیری اداؤں کی
شخص جو تھا طالب کبھی مطلوب ہو گیا
دنیا نے سزا دی اسے جرمِ وفا کے لیۓ
زندہ تو وہ ہے گرچہ مصلوب ہو گیا

0
74
عذر ہوۓ غالب پابندی ملنے پر ہوٸ
عشق وہ جو منہ زور تھا مغلوب ہو گیا
مجھ کو نہ آٸ سمجھ ان تیری اداؤں کی
شخص جو تھا طالب کبھی مطلوب ہو گیا
دنیا نے سزا دی اسے جرمِ وفا کے لیۓ
زندہ تو وہ ہے گرچہ مصلوب ہو گیا

0
99
کیا ہی عجب رہی انتھاۓ رودادِ محبت
ہاۓ وہ لمحاتِ قرب خواب نظر آتے ہیں
میرے طور سے لگتا نہیں ہے ٹوٹنا میرا
کون کہے ہے کہ ہم بیتاب نظر آتے ہیں
لاکھ تغافل سہی محبت تو تھی ہم میں
داغِ ہجر تم میں بھی جناب نظر آتے ہیں

0
219
آراٸشِ مکاں میں مکیں بھی تو کہیں ہے
کعبہ کہیں ہے تو جبیں بھی تو کہیں ہے
کس بات پہ قاٸم یہ ترا فخر و غرور
گردوں کہیں ہے تو زمیں بھی تو کہیں ہے
شامِ غم زندگی کا روشن سا ہے عکس
ہاں ہے یہاں پر تو نہیں بھی تو کہیں ہے

0
1
72
عذر ہوۓ غالب پابندی ملنے پر ہوٸ
عشق وہ جو منہ زور تھا مغلوب ہو گیا
مجھ کو نہ آٸ سمجھ ان تیری اداؤں کی
شخص جو تھا طالب کبھی مطلوب ہو گیا
بن کے سورج چمکا جو میرے افق کے پار
وقت کا ستم دیکھ وہ اب غروب ہو گیا

0
71
حادثوں کی دنیا میں حادثہ نہیں کوٸ
ساتھ ہے تیرا جاناں سانحہ نہیں کوٸ
شام یا سویرا ہو سیاہ اندھیرا ہو
موسموں کے چنگل میں آیا نہیں کویُ
زایُقہ کویُ بھی ہو شربتی سا لگتا ہے
آتشی دہواں بھی تو لگتا نہیں کویُ

0
91
برگِ تر کیوں سوکھنے کے بہانے مانگے
جب وہ شخص بھی روٹھنے کے بہانے مانگے
ترکِ خیال پر اسکو کمال ہے سنا ہے
حال ان کا من پوچھنے کے بہانے مانگے
لاکھ بھلانے کی ان کو سعی کر لوں میں
سوچ ان کو بس سوچنے کے بہانے مانگے

0
92