Circle Image

humayun raja

@azadraj

خود سے باہر نکل رہا ہوں میں

تصور میں وہ رہتی ہے بناتی ہے وہ تصویریں
عجب ہے یاد تیری بھی جو پہناتی ہے زنجیریں
مری خاموشیوں کی بھی زباں تجھ کو پکارے ہے
تجھی کو لے کے چلتی ہیں مری ساری ہی تقریریں
قلم جب بھی اٹھاتا ہوں کہیں کچھ بھی جو لکھنا ہو
تجھے پکڑے ہی رہتی ہیں نکلتی ہیں جو تحریریں

0
9
بخت اپنے ہیں کہاں تجھ کو یوں پانے والے
زیست کے دکھ ہیں کہ اندر سے جلانے والے
کیسے بکھرا ہے خیالوں کا تسلسل میرا
کیسے سب چھوڑ گئے ساتھ نبھانے والے
اپنے دامن میں ہے کانٹوں کا بسیرا اب تو
ہو گئے مجھ سے جدا پھول اگانے والے

0
9
محبت مری بھی تو اک امتحاں ہے
تجھے چاہنا بھی تو کارِ رواں ہے
کہ اس کی روِش کو سمجھنا ہے مشکل
کبھی ہے یہ ظالم کبھی مہرباں ہے
حقیقت زمانوں کی دکھلاتی ہے یہ
کبھی پیری ہے یہ کبھی یہ جواں ہے

0
10
محبت رہے گی رہے گی ہمیشہ
مری آنکھ سے یہ بہے گی ہمیشہ
یہ وعدہ ہے میرا تو خود سے اے جاناں
یہ جاں ظلم تیرے سہے گی ہمیشہ
وفاؤں پہ تیری اٹھیں گی جو باتیں
تُو دنیا سے پھر کیا کہے گی ہمیشہ

0
5
گلہ شکوہ شکایت ہے
یہ جو تیری محبت ہے
یہ تیری سوچ میں ہے کیوں
بری ہر میری عادت ہے
وہ میرا بولنا سننا
نقائص سے عبارت ہے

0
13
کوئی ایسا اشارا دے
خدا مجھ کو کنارہ دے
کوئی دکھ پھر خدارا دے
جو مجھ کو کچھ سہارا دے
جو میرے ان خیالوں کو
نیا پھر سے شرارہ دے

0
11
کیسے بنیں گی دلکش اپنی کہانیاں سی
رہتی ہیں خود سے مجھ کو کچھ بدگمانیاں سی
کیسے گزر گئے وہ لمحے عروج کے سب
آئی تھیں مجھ پہ بھی تو کچھ دن جوانیاں سی
وہ گفتگو کے جھرنے جادو سا تھے جو کرتے
جانے کہاں گئی ہیں اپنی روانیاں سی

0
12
ترا اقرار کرنا بھی تو کچھ انکار جیسا ہے
یہ کیسا پیار ہے تیرا جو کچھ کچھ پیار جیسا ہے
ترے ملنے سے بھی تجھ سے مرا ملنا نہیں ہوتا
کہ تیرا بولنا مجھ سے عدم گفتار جیسا ہے
کوئی تو نام دے اس کو تعلق جو بنایا ہے
کہ ہے یہ رسمِ دنیا یا کسی بیوپار جیسا ہے

0
12
جانے کیوں تو نے مجھے ایسے بھلا رکھا ہے
جیسے پتھر سا کوئی دل پہ سجا رکھا ہے
میں نے در اپنا ہمیشہ ہی کھلا رکھا ہے
ٰدل کی تختی پہ ترا نقش بنا رکھا ہے
تیرے اندازِ ستم سے بھی ہے رغبت مجھ کو
تیری ہر چیز سے رکھنی ہے محبت مجھ کو

0
15
دور رہ کر جو تُو نے دئے مجھ کو غم
میں نے دیکھا کہاں تھا یہ طرزِ ستم
ہر نیا زخم تو نے لگایا ہمیں
ہر نئے سوز سے آشنا اب ہیں ہم
تھا فقط تیری چاہت کے ہی یہ سبب
جو جہاں میرا روشن تھا میرے صنم

0
17
تجھ کو احساس اب نہیں رہتا
میں ترے پاس اب نہیں رہتا
ہوں اگر دوریاں کبھی تو وہ
صاحبِ یاس اب نہیں رہتا
مجھ سے فرقت کبھی جو غربت تھی
ویسا افلاس اب نہیں رہتا

0
19
مجھے اپنے تخیل میں جگہ کچھ دے کے دیکھو تم
کہ اپنے میرے بندھن کو گرہ کچھ دے کے دیکھو تم
مجھے کب مار سکتے ہیں حوادث اس زمانے کے
کہ اپنی باتوں سے بس حوصلہ کچھ دے کے دیکھو تم
میں جینے کے لئے تو پھر سے ہو جاؤں گا راضی بھی
کہ منزل کا مری بس آسرا کچھ دے کے دیکھو تم

0
17
سبز گنبد کو دیکھا مچل میں گیا
ذات اپنی کے اندر پگھل میں گیا
خود میں رہنا بڑا ہی گراں ہو گیا
خود کے اندر سے خود ہی نکل میں گیا
باتیں ساری دھری کی دھری رہ گئیں
وہ ارادہ جو کر کے اٹل میں گیا

0
16
یہ اب جوشِ جنوں تیرا تجھے برباد کر دے گا
یہ کہنا میں تو ہوں تیرا تجھے برباد کر دے گا
کہ خود سے وعدہ کر لینا کہ رکھنا یہ ارادہ بھی
ہمیشہ میں رہوں تیرا تجھے برباد کر دے گا
کہ ناصح نے تھا سمجھایا کہ جذبہ اس محبت کا
چرا کر سب سکوں تیرا تجھے برباد کر دے گا

0
10
عشق تیرے نے سنوارا مجھ کو
درد تیرا ہے سہارا مجھ کو
ہے ملاقات بھی دلکش تیری
ہجر تیرے نے نکھارا مجھ کو
جس نے اک آگ لگا دی مجھ میں
مل گیا وہ ہی شرارہ مجھ کو

0
12
یہ لہجہ تیرا یہ تیری باتیں کہاں گئیں ہیں ادائیں تیری
بناوٹی تھے وہ وعدے تیرے بناوٹی تھیں وفائیں تیری
کمال یہ تھا کہ ہم نے سوچا تجھی کو ساری جو ساعتوں میں
یقین یہ تھا کہ میری ہوں گی یہ دل و جاں سے وفائیں تیری
چلوں میں لے کے جو ساتھ یادوں کے قافلے کو سفر میں اپنے
ہیں ڈالیں گرچہ یہ رنج میں ہی ستم کہانی سنائیں تیری

0
10
شاید وہ میرے شوق کی شدت نہیں رہی
اس کی ادا میں یا تو وہ حدت نہیں رہی
یا دیکھنے کا میرا وہ انداز کھو گیا
یا اس کو اب وہ ہم سے محبت نہیں رہی
اس دور میں عجب ہے وفاؤں کو پالنا
کیوں میرے سوچنے میں وہ جدت نہیں رہی

0
12
پکار وہ تڑپ جواں چلی گئی ہے سب کہاں
وہ چاہتوں کی داستاں چلی گئی ہے سب کہاں
وہ راستے وہ منزلیں وہ منزلوں کی چاہتیں
ملن کی وہ تڑپ جواں چلی گئی ہے سب کہاں
وہ خواہشِ وصال بھی جو تھی نشانِ زندگی
جو لگ رہی تھی جاوداں چلی گئی ہے سب کہاں

0
5
رازِ دل مجھ کو وہ اب ایسے بتانے آئے
جیسے احسان کوئی مجھ کو جتانے آئے
وہ بھی کیا وقت تھا آسانیاں تھیں ملنے کی
اب ملاقات کے مشکل یہ زمانے آئے
وحشتوں نے ہیں جو ڈالے یہ بھیانک ڈیرے
دل میں اک بار کوئی جشن منانے آئے

0
7
نہ ملاقات نہ اب شوقِ ملاقات رہا
نہ محبت نہ وہ اب شعلہِ جذبات رہا
چلو میں ترک کروں خود کو میں آزاد کروں
مرے آنگن میں ترا دکھ بھی جو دن رات رہا
مجھ سے ملنے کو تڑپ جو تُو دکھاتا تھا کبھی
نہ وہ شدت نہ خیالوں میں مرے ساتھ رہا

0
8
اپنے غم سے میں کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
تیرا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے کیسی یہ ہو گی دنیا
بن ترے اس کا نظارہ کر لوں

0
14
ستمگری کا تماشا لگائے رکھتے ہو
مجھے ہی اپنا نشانہ بنائے رکھتے ہو
ہے اور کام بھی تیرا کہ جو تو کرتا ہو
کہ دل پہ تاک مرے ہی لگائے رکھتے ہو
کہ ایک لفظ محبت جہاں نہ ملتا ہو
ہے کیسا گیت جو مجھ کو سنائے رکھتے ہو

0
13
تُو جو رکھتا ہے ہنر خوب ستانے والا
میں بھی رکھتا ہوں جگر سوز کمانے والا
تو نے اپنائی ہیں کب سے یہ ستم کی رسمیں
کون آتا ہے تجھے راہ دکھانے والا
تجھ کو معلوم نہ ہو گا کہ مجھے صدمہ ہے
میں نے دل پایا نہیں اشک بہانے والا

0
12
تم سے ملنا کبھی اتنا بھی تو دشوار نہ تھا
جیسا اب ہوں کبھی اتنا بھی تو بیمار نہ تھا
خود ہی طاری ہے کیا ہم نے جفاؤں کو تری
ایسا مہلک تو کبھی بھی یہ ترا وار نہ تھا
میرا جینا بھی مجھے ایسے لگے جینا نہیں
زندگی سے کبھی ایسے بھی تو دوچار نہ تھا

0
7
آنکھوں میں جو بادل ہے برستا بھی نہیں ہے
سانسوں کا جو آنچل ہے سرکتا بھی نہیں ہے
ہر وقت سلگتی ہے یہ خواہش کی اذیت
بجھتا بھی نہیں شعلہ بھڑکتا بھی نہیں ہے
کس آگ میں جھونکا ہے تری دید نے مجھکو
یہ وقت رکا ہے کہ گزرتا بھی نہیں ہے

0
13
داستاں پھر کوئی اپنے سے عبارت کر لیں
پھر سے اک بار کہیں کچھ تو شرارت کر لیں
پھر سے بنیاد محبت کی کہیں رکھتے ہیں
پھر سے مل کر اسے ہم ایک عمارت کر لیں
آؤ مل کر یوں بسا لیتے ہیں دنیا اپنی
عہد و پیمان کی پھر ایک جسارت کر لیں

0
12
تُو آ گیا ہے مرے پاس یہ گماں ہے ابھی
یقینِ وصل کو دیکھوں کہ وہ کہاں ہے ابھی
ابھی تو زیرِ اثر ہوں فراق میں ہوں ترے
میں یہ یقین تو کر لوں کہ تُو یہاں ہے ابھی
کی تیرے بعد مقفل جو کر دیا تھا اسے
کہ کھولنا ہے مجھے بند یہ مکاں ہے ابھی

0
8
یارو جینے کے لئے بس اک تلاطم چائیے
راستہ بھی مجھ کو تھوڑا ویسے مبہم چائیے
یہ متاعِ غم نشانِ زیست دیتا ہے مجھے
جو غموں سے جھولی بھر دے ایسا حاتم چایئے
بےسکونی کا سبب ہے یہ سکونِ زندگی
خواہشوں کا سوگ ہو مجھکو بھی ماتم چائیے

0
15
غم کی آتش میں پل رہا ہوں میں
دیکھ مجھ کو کہ جل رہا ہوں میں
ہجر کا ہی تو شاخسانہ ہے
لحظہ لحظہ پگھل رہا ہوں میں
نقش اپنے رہے نہیں اپنے
لمحہ لمحہ بدل رہا ہوں میں

0
14
حادثوں کی دنیا میں حادثہ نہیں کوئی
ساتھ ہے ترا تو پھر سانحہ نہیں کوئی
شام ہو سویرا ہو رات ہو اندھیرا ہو
موسموں کا ہم کو تو مسئلہ نہیں کوئی
ذائقہ کوئی بھی ہو شربتی سا لگتا ہے
تو نہ ہو مری جاں تو ذائقہ نہیں کوئی

0
11
جو تجھ سے ملن کی دعا میں نے کر دی
محبت میں کیسی خطا میں نے کر دی
کہ خود سے جو بیگانہ کرتا ہے آخر
اسی عشق کی ابتدا میں نے کر دی
یوں بسنا تھا دنیا میں تیری جو میں نے
کہ ساری خدائی خفا میں نے کر دی

0
11
جو سوچ تھی خیال تھا وہ سب ہی خواب ہو گیا
غضب کیا جو تجھ کو یوں میں دستیاب ہو گیا
وہ ٹھیک تھا فراق ہی وہ ٹھیک تھیں سو دوریاں
وہ لذتِ وصال میں تو سب خراب ہو گیا
وہ قربتوں کے شوق میں سناؤں کیا میں حالِ دل
کہ شوقِ دید و وصل میں بُرا جناب ہو گیا

0
14
ہو چکا ہے شوق پورا ان سہاروں سے مجھے
اب نکلنا ہے محبت کے حصاروں سے مجھے
بیچ طوفاں ورد کرنے دے فنا کا تو مجھے
خوف آتا ہے محبت کے کناروں سے مجھے
رہبری بھی ہونگے کرتے اور لوگوں کے لئے
کیا کوئی امید ہو گی ان ستاروں سے مجھے

0
11
ہم تو کرتے چلے جائیں گے یہ سفر
ویسے بھی اب نہیں ہے کوئی اپنا گھر
آشیاں جو زمانہ اڑا لے گیا
تنکا تنکا گیا ہے یہاں جو بکھر
سب ہی اپنے سفر میں اکیلے یہاں
کوئی ہوتا نہیں ہے یہاں ہمسفر

0
8
دے رہا ہے کون کس کو یہ سزا اندر مرے
ایک شورِ بدتمیزی ہے بپا اندر مرے
دل یہ چاہے ڈال دوں میں پشت پر تہذیب کو
سن لوں آئے جو بغاوت کی صدا اندر مرے
وار پیچھے سے کسی نے کر دیا ہو گا کہ جو
شخص ایسے ہی نہیں بیٹھا خفا اندر مرے

12
اگرچہ لبوں تک یہ آیا بہت ہے
غمِ دل کو ہم نے چھپایا بہت ہے
کہ ہم نے بھی اس کو تھا کندن بنانا
ترے عشق میں دل جلایا بہت ہے
کبھی ہم نے دامن وفا کا نہ چھوڑا
کہ طوفان راہوں میں آیا بہت ہے

0
10
ساتھ تیرے جو میں سفر میں رہا
زندگی بھر میں اک پہر میں رہا
ہوش میں تو کبھی رہا ہی نہیں
جو رہا میں ترے اثر میں رہا
جب ترے ساتھ آشنا بھی نہ تھا
پھر بھی تیرے ہی میں نگر میں رہا

0
17
دل کا یہ حال میں اب تم پہ عیاں کیسے کروں
اپنے الفاظ کو اب شعلہ بیاں کیسے کروں
مجھ کو تاثیرِ سخن کا بھی تو اک مسئلہ ہے
اپنی گفتار میں لفظوں کو جواں کیسے کروں
تری یادوں سے ہی رہتی ہے جو آنگن میں بہار
بھول کر ان کو میں اب وقفِ خزاں کیسے کروں

0
9
محبت کی راہوں پہ چلتا گیا
مرا وقت یوں ہی گزرتا گیا
زیاں کی نہ مجھ کو خبر ہی ہوئی
جو تھا ہاتھ میرے سرکتا گیا
مجھے زخم لگتے ہی لگتے گئے
مرا دم نکلتا نکلتا گیا

0
7
وہ ربط جو تھا سانس کا وہ ربط بھی گنوا دیا
کہ تم نے میرے شوق کا ہر آشیاں جلا دیا
جو مجھ سے تھا تُو منسلک تو منسلک نہ رہ سکا
وہ مشترک جو ہم میں تھا تمام تر بھلا دیا
کہ ہم ترے خیال میں جو جھومتے تھے ہر سمے
وہ جاگتے خیال کو تو ہم نے اب سلا دیا

0
9
آنکھوں میں میری نیند نہ آئے ہے رات بھر
بس یاد تیری مجھ کو ستائے ہے رات بھر
کل ہاتھ میرے ہاتھ پہ تو نے تھا رکھ دیا
اب لمس تیرے ہاتھ کا آئے ہے رات بھر
جادو سا تیری مست نگاہی نے کر دیا
ماحول بیخودی کا بنائے ہے رات بھر

0
9
میں بھی نکلا تھا کہیں عشق کمانے کے لئے
دل کے آنگن میں کوئی دیپ جلانے کے لئے
ہو گئے اب وہ پرانے جو ملے زخم مجھے
پھر ہوں تیار نئے دوست بنانے کے لئے
کر دو افکار کی ترتیب سے بیگانہ مجھے
دل میں اک سوز کہیں پھر سے جگانے کے لیے

0
8
مجھے تیری باتوں پہ پورا یقیں ہے
مگر وسوسہ دل میں رہتا کہیں ہے
کسی طور تجھ کو یہ بھولا نہیں ہے
مرا دل محبت کا تیری امیں ہے
جو اپنی ہی دنیا میں رہتا مگن ہے
اسے حال میرا پتا بھی نہیں ہے

0
13
ہم نے دیکھا ہے وفا کچھ بھی نہیں
تیری قربت نے دیا کچھ بھی نہیں
تجھ سے جو دور تھا ایسا ہی تھا میں
تجھ سے مل کر بھی ملا کچھ بھی نہیں
ٹوٹنا عشق میں تو بنتا ہی تھا
جو نہ ٹوٹے وہ انا کچھ بھی نہیں

0
11
کوئی بنیاد رکھتے ہیں کسی تازہ فسانے کی
چلو کر لیں کوئی تدبیر ہم خود کو جلانے کی
کہ میری پرسکوں لہروں میں آ جائے تلاطم پھر
کہ لہروں میں ہو پیدا پھر سے خواہش سر اٹھانے کی
کریں تعمیر ہم مل کر محل کوئی خیالوں کا
کریں تدبیر اس کو وعدوں قسموں سے سجانے کی

0
10
دھیرے دھیرے ہوا پر یہ کیا ہو گیا
ہم میں تم میں یہ کیوں فاصلہ ہو گیا
اس تعلق میں ہم نے فنا ہونا تھا
کیوں ہمارا تعلق فنا ہو گیا
نام تیرا میں لیتا تھا اتنی جگہ
ہوتے ہوتے وہ حرفِ دعا ہو گیا

0
14
دور رہ کر بھی مجھ سے سنبھل جائیں گے
آپ کا کیا پتا تھا بدل جائیں گے
وہ جہاں سے مرے جو نکل جائیں گے
سارے سورج عنایت کے ڈھل جائیں گے
یہ نہیں تھا پتا ہجر سنگین ہے
بن ترے ہم جو ایسے مچل جائیں گے

0
9
عشق میں فنا کا جو انتخاب کر لیا
ناخدا کے قرب سے اجتناب کر لیا
ہم نے اپنا تو الگ ہی نصاب کر لیا
عشق کا حساب جب بے حساب کر لیا
پھر کسی سراب کی سمت میں نہ جاؤں گا
عہد تجھ سے دوریوں کا جناب کر لیا

0
10
چلو کہ پھر سے نیا رازداں بنا لیں ہم
نئی زمین نیا آسماں بنا لیں ہم
کہیں تلاش کریں ہم نئے زمانوں کو
نئے سرے سے کوئی داستاں بنا لیں ہم
تجھے نکال کے اپنے وجود سے ہم بھی
نئے شجر پہ کوئی آشیاں بنا لیں ہم

0
7
میرے دل کی سختیوں میں میں کہاں شامل رہا
سخت جانی میں کمالِ دوستاں شامل رہا
گرچہ تجھ پر تھا یقیں مجھکو مرے اے ہمسفر
راستے میں لٹنے کا پھر بھی گماں شامل رہا
شکوہ میرا دشمنوں سے اب تو بنتا ہی نہیں
میری بربادی میں میرا مہرباں شامل رہا

0
18
ہر سمت جو یہ جشن کا آغاز ہوا ہے
ہم تم سے ملے ہیں تو یہ اعجاز ہوا ہے
جو میرے تخیل میں یہ ہلچل سی مچی ہے
ایسا مری دنیا میں کبھی شاذ ہوا ہے
ہے پھر سے تلاطم کا وہی عزمِ تباہی
دل اپنے سکوں سے جو دغا باز ہوا ہے

0
6
مجھ پہ موسم کا اثر کچھ بھی نہیں
ہو نہ تیری تو خبر کچھ بھی نہیں
مجھ سے ملنے کا کوئی عہد تو کر
ورنہ یہ سوزِ جگر کچھ بھی نہیں
تیری یادوں پہ ہی جینا ہے مجھے
ورنہ میرا تو بسر کچھ بھی نہیں

0
9
محبت کا صلہ کچھ بھی میں تم سے مانگتا کب ہوں
فنا اپنی میں تجھ سے میں امیدیں باندھتا کب ہوں
ہو محرم تم شناسا تم مری سوچوں کا محور تم
بھری دنیا میں تیرے بن کسی کو جانتا کب ہوں
تری خواہش مقدم ہے مجھے خود سے بھی اے جاناں
ترے آگے تو خود کی بھی کوئی میں مانتا کب ہوں

0
9
تغیر کی یہ دنیا ہے کہ میں بھی ہوں مکیں اس کا
یقینی بےیقینی میں بھی رہتا ہے یقیں اس کا
یہ سامانِ سفر اتنا میں باندھوں کس لئے جاناں
کہ کتنا دور جانا ہے بھروسہ کچھ نہیں اس کا
بناؤں کیا سجاؤں کیا میں اس مٹی کی مُورت کو
تخیل باقی رہنا ہے کہ ہو چہرہ حسیں اس کا

0
13
ہم سے وہ اجتناب کرتے ہیں
وہ حقیقت کو خواب کرتے ہیں
عشق ہے داستاں فناؤں کی
پھر بھی خانہ خراب کرتے ہیں
مبتلا جو بھی عشق میں دیکھیں
اسکو زیرِ عتاب کرتے ہیں

0
17
اس ہجر میں وہ ہجر کا سا وہ مزا نہیں
ملنی جو تھی وہ عشق میں یہ وہ سزا نہیں
کب کوئی دوریاں مجھے بےتاب اب کریں
اب تجھ سے ملنے کو بھی میں دیتا صدا نہیں
مجبوریاں ہیں کون سی ایسے بدل گیا
کرتا ہے جو تو ظلم وہ تیری ادا نہیں

0
8
جو ستم مجھ پہ روا رکھا ہے
تو نے کیا مجھ سے بنا رکھا ہے
ہم نگہبانی کریں گے اس کی
دل میں جو کارِ وفا رکھا ہے
جیسے انعام کوئی ملنا ہو
مجھ پہ جو ظلم اٹھا رکھا ہے

0
5
ہے عجب بات کہ تو نے ہے گزارا ہم کو
زندگی تیرے رویے نے ہے مارا ہم کو
ہم نے جس شوقِ تمنا سے تجھے دیکھا تھا
تم نے اپنوں کی طرح کب ہے پکارا ہم کو
وہ جو تحلیل ہوا تم میں زمانہ پہلے
وہ کبھی مل نہ سکا شخص دوبارہ ہم کو

0
9
یہ فاصلوں کے فلسفے جدائیوں کے رتجگے
یہ زندگی کا حسن ہیں یہ نم رُتوں کے قمقمے
یہ فرقتوں کا سوز بھی یہ قربتوں کی لذتیں
یہ قہقہے یہ چشمِ نم ہیں زندگی کے چٹکلے
یہ آنسؤں کی بارشیں یہ زیرِ لب شرارتیں
ملن کی یہ مسرتیں یہ فرقتوں کے سلسلے

0
9
مجھے اپنے خوابوں کی زینت بنا لے
مجھے اپنی آغوش میں تو چھپا لے
تُو کانٹوں کو کر کے یوں میرے حوالے
گل و رنگ مجھ سے تُو سارے اٹھا لے
تُو خوابوں کی دنیا میں رہتے ہوئے بس
یہاں پر تُو تسکینِ بادِ صبا لے

0
5
کبھی راس مجھ کو یہ آئے محبت
کبھی پھر مجھے یہ جلائے محبت
سکوں بھی ملے اور بے چینیاں بھی
کبھی پہروں مجھ کو ستائے محبت
کبھی جاگتے میں سلائے مجھے یہ
کبھی سوتے سوتے اٹھائے محبت

0
7
خود کو بھلا کے رکھ دیا خود کو جلا کے رکھ دیا
ہم نے ادا تری پہ تو خود کو مٹا کے رکھ دیا
تیرے بغیر یہ بھی تو لگتا نہیں ہے کام کا
دل کو تو ہم نے اب کہیں دور اٹھا کے رکھ دیا
میرا بھی عکس آئینہ دے نہ سکے ہے اب مجھے
تیری محبتوں نے تو کیا ہی بنا کے رکھ دیا

0
7
شبِ غم ہے کہ سویرا نہیں ہوتا
وہ جو میرا ہے وہ میرا نہیں ہوتا
یہ محبت کے چراغوں کے سبب ہے
وہ جو یادوں پہ اندھیرا نہیں ہوتا
یہ تو بسنے کا جنوں ہے ترے اندر
میرا من میں جو بسیرا نہیں ہوتا

0
12
تشہیرِ تعلق نے دیا کچھ بھی نہیں ہے
اک درد سا ہے اور ملا کچھ بھی نہیں ہے
جس سوچ میں رہتا تھا تلاطم سا ہمیشہ
وہ سوچ بیاباں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
ہر چیز بناوٹ تھی تعلق میں تمھارے
وہ وقت کی باتیں تھیں وفا کچھ بھی نہیں ہے

0
10
ربط کا یوں ٹوٹنا ہے حادثہ میرے لئے
کیوں بچا دنیا میں ہے دردِ جفا میرے لئے
لے کے آتی تیری خوشبو جو مرے چاروں طرف
کاش چل جاتی کہیں ایسی ہوا میرے لئے
عشق تیرے نے جنوں سے آشنا تو کر دیا
بن گئی ہے جان لیوا یہ خطا میرے لئے

0
11
تم سے جو بات اب نہیں ہوتی
صبح کیا رات اب نہیں ہوتی
تیرا ملنا کبھی قیامت تھا
وہ ملاقات اب نہیں ہوتی
تُو تو ملتا تھا جتنا میں چاہوں
ویسی بہتات اب نہیں ہوتی

0
8
ہم سے یہ ہو نہ سکا ایسی جسارت کرتے
لوگ دیکھے ہیں محبت میں تجارت کرتے
میں نے بنیاد رکھی تھی جو خیالوں میں کبھی
تم اگر ساتھ ہی رہتے تو عمارت کرتے
توُ نے بےربط کیا ہے جو مری سوچوں کو
تم خیالوں کو مرے یوں تو نہ غارت کرتے

0
10
ہر سمت جو کھوئی ہے نظر کچھ نہیں آتا
اب تیری محبت کا اثر کچھ نہیں آتا
اک شورشِ نادیدہ بپا رہتی ہے دل میں
باہر سے جو دیکھوں تو نظر کچھ نہیں آتا
ہر روز جو امید کا میں دیپ جلاؤں
ہر شام اداسی ہے جو گھر کچھ نہیں آتا

0
11
بات ایسی تو نہ تھی تم نے بڑھائی جیسے
یہ بھی کیا شانِ وفا ہے جو نبھائی جیسے
تم مرے شوق کی تحقیر کئے جاتے ہو
پیار کی مجھ سے کراتے ہو گدائی جیسے
تھے رقیبوں سے مراسم جو چھپائے تم نے
ہر کہانی بھی یونہی جھوٹ بنائی جیسے

0
7
اک تلخ حقیقت تھی بھلاتا بھی نہیں ہوں
پھر دیپ محبت کا جلاتا بھی نہیں ہوں
اس وصل کی یادیں بھی ستاتی ہیں اگرچہ
یادوں سے تری دور میں جاتا بھی نہیں ہوں
اب دور ترے وصل کا آتا بھی نہیں ہے
اور ہجر کا میں ساز بجاتا بھی نہیں ہوں

0
9
زندگی میں نہ کبھی کوئی اذیت ہو گی
اب ترے بعد کسی سے نہ محبت ہو گی
تجھ سے ملنے کا تقاضا بھی اگر آتا ہے
اب ملاقات میں ویسی کہاں عجلت ہو گی
کام اپنے لئے دیکھوں گا میں ایسے ایسے
یاد کرنے کی تجھے مجھ کو نہ فرصت ہو گی

0
15
کبھی جو کہتے تھے لوگ مجھ سے
سنبھال رکھنا محبتوں کو
اتار رکھنا انا کی چادر
کہ رابطوں میں پہل ہی کرنا
خیال رکھنا کہ ٹوٹ پائے
نہ رابطوں کی لڑی یہ دلکش

0
43
ہم سے یہ ہو نہ سکا ایسی جسارت کرتے
لوگ دیکھے ہیں محبت میں تجارت کرتے
تھی جو بنیاد رکھی ہم نے خیالوں میں کبھی
تم اگر ساتھ میں رہتے تو عمارت کرتے
میری سوچوں کو جو بے ربط کیا ہے تم نے
میرے پاکیزہ خیالوں کو نہ غارت کرتے

0
49
اپنے غم سے میں کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
تیرا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے کیسی یہ ہو گی دنیا
بن ترے اس کا نظارہ کر لوں

1
65
یارو جینے کے لئے بس اک تلاطم چائیے
راستہ بھی مجھ کو تھوڑا ویسے مبہم چائیے
یہ متاعِ غم نشانِ زیست دیتا ہے مجھے
جو غموں سے جھولی بھر دے ایسا حاتم چایئے
بےسکونی کا سبب ہے یہ سکونِ زندگی
خواہشوں کا سوگ ہو مجھکو بھی ماتم چائیے

0
34
مجھے اپنے تخیل میں جگہ کچھ دے کے دیکھو تم
کہ اپنے میرے بندھن کو گرہ کچھ دے کے دیکھو تم
مجھے کب مار سکتے ہیں حوادث اس زمانے کے
کہ اپنی باتوں سے بس حوصلہ کچھ دے کے دیکھو تم
میں جینے کے لئے تو پھر سے ہو جاؤں گا راضی بھی
کہ منزل کا مری بس آسرا کچھ دے کے دیکھو تم

0
32
جو سوچ تھی خیال تھا وہ سب ہی خواب ہو گیا
غضب کیا جو تجھ کو یوں میں دستیاب ہو گیا
وہ ٹھیک تھا فراق ہی وہ ٹھیک تھیں سو دوریاں
وہ لذتِ وصال میں تو سب خراب ہو گیا
وہ قربتوں کے شوق میں سناؤں کیا میں حالِ دل
وہ شوقِ دید و وصل میں جو میں جناب ہو گیا

0
37
وہ ربط جو تھا سانس کا وہ ربط بھی گنوا دیا
وہ تم نے میرے شوق کا ہر آشیاں جلا دیا
جو مجھ سے تھا تُو منسلک تو منسلک نہ رہ سکا
وہ مشترک جو ہم میں تھا وہ سب ہی کچھ بھلا دیا
خیال تیرے میں وہ ہم جو جھومتے تھے ہر سمے
وہ جاگتے خیال کو تو ہم نے اب سلا دیا

0
34
آنکھوں میں میری نیند نہ آئے ہے رات بھر
بس یاد تیری مجھ کو ستائے ہے رات بھر
کل ہاتھ میرے ہاتھ پہ تو نے تھا رکھ دیا
اب لمس تیرے ہاتھ کا آئے ہے رات بھر
جادو سا تیری مست نگاہی نے کر دیا
ماحول بیخودی کا بنائے ہے رات بھر

0
30
بخت اپنے ہیں کہاں تجھ کو یوں پانے والے
زیست کے دکھ ہیں کہ اندر سے جلانے والے
کیسے بکھرا ہے خیالوں کا تسلسل میرا
کیسے سب چھوڑ گئے ساتھ نبھانے والے
اپنے دامن میں ہے کانٹوں کا بسیرا اب تو
ہو گئے مجھ سے جدا باغ لگانے والے

0
31
میں بھی نکلا تھا کہیں عشق کمانے کے لئے
دل کے آنگن میں کوئی دیپ جلانے کے لئے
ہو گئے اب وہ پرانے جو ملے زخم مجھے
پھر ہوں تیار نئے دوست بنانے کے لئے
کر دو افکار کی ترتیب سے بیگانہ مجھے
دل میں اک سوز کہیں پھر سے جگانے کے لیے

0
30
کوئی بنیاد رکھتے ہیں کسی بھی پھر فسانے کی
چلو کر لیں کوئی تدبیر ہم خود کو جلانے کی
کہ میرے پرسکوں پانی میں آ جائے تلاطم پھر
کہ لہروں میں ہو پیدا پھر سے خواہش سر اٹھانے کی
کریں تعمیر ہم مل کر محل کوئی خیالوں کا
کریں تدبیر اسکو وعدوں قسموں سے سجانے کی

0
24
کہ میرے بعد تجھے چاہتوں کی پیاس ملے
تو دیکھتی رہے کوئی نہ تجھ کو پاس ملے
کمال ہو کہ تو لوٹے مجھے تلاش کرے
نگر نگر تو پھرے اور تجھے بھی یاس ملے
تو بھی بتا نہ سکے زخمِ دل کسی کو کبھی
کہ میرے بعد تجھے زخم ایسا خاص ملے

0
22
ہم سے وہ اجتناب کرتے ہیں
وہ حقیقت کو خواب کرتے ہیں
عشق ہے داستاں فناؤں کی
پھر بھی خانہ خراب کرتے ہیں
مبتلا جو بھی عشق میں ہو گا
اسکو زیرِ عتاب کرتے ہیں

0
49
اس کو ڈھونڈو کہیں وہ گیا ہے کہاں
میرے محرم کا ہے اک الگ ہی جہاں
وہ تو واقف نہیں ہے رواجوں سے بھی
اجنبی راستے اجنبی ہے جہاں
کوئی چہرہ بھی اس کا شناسا نہیں
جانتا بھی نہیں وہ یہاں کی زباں

0
28
تنہائیوں کے ڈر سے تنہا رہا ہوں میں
ان چاہتوں کے در سے سہما رہا ہوں میں
بنتا رہا ہوں گنجل سوچوں کی راہ پر
ان عادتوں میں اپنی سادہ رہا ہوں میں
بربادیوں کا میری کچھ بھی رہا سبب
خود سے گلے ہی سارے کرتا رہا ہوں میں

0
50
عادتیں تو کمال رکھنی ہیں
رنجشیں بھی سنبھال رکھنی ہیں
عشق کے سلسلے میں بھی ہم نے
مشکلیں ہی تو پال رکھنی ہیں
اب تو یہ عہد کر لیا ہم نے
خواہشیں بھی بحال رکھنی ہیں

0
40
بہت ہی پھٹا اور پرانا سا تھیلا
کہ بوسیدگی کی یہ حالت
کہ دیکھا نہ جائے
جسے ہر طرح سے
جو سی کر سجا کر
نظر کے مطابق

0
41
حقیقت ترے پیار کی تھی
جو کھل کے مرے سامنے ہے
اذیت بھری اک کہانی جو میرے نصیبوں کا عقدہ
مجھے پھر بتانے کو حاضر ہو جاتی تو میں کیا کہوں اب
یہ تو اب حقیقت ہے بس جو
فلک پر چمکتے دمکتے ستاروں کے جیسے عیاں ہے

0
46
کشتیاں ساری ہی اس پار کہیں چھوڑ آئے
تیرے ادوار سے نکلوں تو کوئی دور آئے
تیری یادوں نے پکارا ہے اگر دھیرے بھی
ہم نے سب چھوڑ دیا تیری طرف دوڑ آئے
تیرا چہرہ ہی نظر آئے ہے ہر سو مجھ کو
تو مری سوچ سے نکلے تو کوئی اور آئے

0
48
کوئی بنیاد رکھتے ہیں کسی بھی پھر فسانے کی
چلو کر لیں کوئی تدبیر ہم خود کو جلانے کی
کہ میرے پرسکوں پانی میں آ جائے تلاطم پھر
کہ لہروں میں ہو پیدا پھر سے خواہش سر اٹھانے کی
کریں تعمیر ہم مل کر محل کوئی خیالوں کا
کریں تدبیر اسکو وعدوں قسموں سے سجانے کی

0
54
طاق جو دل میں بنا کے رکھا ہے
درد کو ہم نے چھپا کے رکھا ہے
نشہ اسکا بھی ہے مخمور کرے
ہجر کو ہم نے چڑھا کے رکھا ہے
اس نے رہنا ہے رہے گا یہ یہیں
نقش جو دل پہ بنا کے رکھا ہے

0
52
تبدیل ہوا تیرا یہ اندازِ تخاطب
باتیں جو کرے مجھ سے نہیں تھا میں مخاطب
اس طرح سے جو تو نے نبھایا وفا کا عہد
جو تیر بھی نکلا تو وہ آیا مری جانب
اس بار تو لگتا ہے ترا چھوڑنا مجھ کو
اس بار تو بدلے سے ہیں ہم سے یہ کواکب

0
51
ڈھل گئے ہیں ماہ و سال دیکھتے ہی دیکھتے
کیا ہوا جاہ و جلال دیکھتے ہی دیکھتے
ہے نہیں سوزِ بیاں نہ ہی زباں کی چاشنی
اب رہا وہ سر نہ تال دیکھتے ہی دیکھتے
میں رہا ہوں بے مراد زندگی کی دوڑ میں
رہ گیا ماضی نہ حال دیکھتے ہی دیکھتے

0
61
یہ جو مصلحت کی ادا تری ہے یہ عشق میں تو روا کہاں
یہ جو سوچ سوچ چلے ہو تم جو فنا نہیں تو وفا کہاں
جو نہ دل کو میرے یوں بھا سکے جو یوں آنکھ میں نہ سما سکے
جو نہ مجھ کو بہلا سکے کبھی تو یہ دلبری کی ادا کہاں
وہ ہلا کے رکھ دے جو دنیا کو اٹھے ایسی ہوک جو دل سے یوں
جو نہ دل سے اٹھ کے جلائے دل تو وہ دل کی ہے یہ صدا کہاں

0
42
زادِ راہ جو تھا وہ سب قلیل کر دیا
عشق نے تو درد میرا طویل کر دیا
اجنبی تھا ہمسفر زندگی کی راہ میں
وقت نے وہ شخص میرا کفیل کر دیا
وصل کے جو لمحے تھے ہو گئے ہیں خواب سب
مجھ کو تیرے ہجر نے اب علیل کر دیا

0
41
یہ فاصلوں کے فلسفے جدائیوں کے رتجگے
یہ زندگی کا حسن ہیں یہ نم رتوں کے قمقمے
یہ فرقتوں کا سوز بھی یہ قربتوں کی لذتیں
یہ قہقہے یہ چشمِ نم ہیں زندگی کے چٹکلے
یہ آنسوؤں کی بارشیں یہ زیرِ لب شرارتیں
ملن کی یہ مسرتیں یہ فرقتوں کے سلسلے

0
34
وہ رہ کے میرے پاس بھی جو دور دور رہ گیا
نہ کہہ کے کوئی بات بھی وہ ساری بات کہہ گیا
گزر گئی وہ رات بھی گزر گئیں وہ ساعتیں
جو تھے نہیں مرے لئے وہ غم بھی میں تو سہہ گیا
یوں تیری بھی تھیں حجتیں تو میرے بھی سوال تھے
یہ ربط تیرا تھا کمال مصلحت میں بہہ گیا

0
37
روابط کے سلسلے تو مرا مان بن گئے
شناسا جو تھے کبھی وہ مری جان بن گئے
ہیں کیسے کٹی یہ منزلیں اس پیار میں ترے
جو کارِ گراں تھے وہ سبھی آسان بن گئے
تہی دامنی کو ہم نے چھپایا تھا راہ میں
کہ زادِ سفر بھی مل گیا سامان بن گئے

0
35
وہ مرے شہر ہوئے شہرِ خموشاں
نہ بچا گل نہ رہا کوئی گلستاں
وہ ترا عہدِ حسیں جو ہو گیا گم
نہ ترا وصل نہ کوئی شبِ ہجراں
ہے خلاصہ یہ مری زیست کا حاصل
جو میں ہوں اور مرا کوچہِ ویراں

0
38
دور رہ کر جو تُو نے دئے مجھ کو غم
ہم نے دیکھا کہاں تھا یہ طرزِ ستم
ہر نیا زخم تو نے لگایا ہمیں
ہر نئے سوز سے آشنا اب ہیں ہم
ہے فقط تیری چاہت کے ہی یہ سبب
غم خوشی کی جو تفریق ہے اب ختم

33
مجھ پہ موسم کا اثر کچھ بھی نہیں
ہو نہ تیری تو خبر کچھ بھی نہیں
مجھ سے ملنے کا کوئی عہد تو کر
ورنہ یہ سوزِ جگر کچھ بھی نہیں
تیری یادوں پہ ہی جینا ہے مجھے
ورنہ میرا تو بسر کچھ بھی نہیں

44
جو تجھ سے ملن کی دعا میں نے کر دی
محبت میں تیری خطا میں نے کر دی
کہ خود سے ہی بیگانہ ہونا تھا یوں جو
ترے عشق کی ابتدا میں نے کر دی
یوں بسنا تھا دنیا میں تیری جو میں نے
کہ ساری خدائی خفا میں نے کر دی

0
39
کہ میرے بعد تجھے چاہتوں کی پیاس ملے
تو دیکھتی رہے کوئی نہ تجھ کو پاس ملے
کمال ہو کہ تو لوٹے مجھے تلاش کرے
نگر نگر تو پھرے اور تجھے بھی یاس ملے
تو بھی بتا نہ سکے زخمِ دل کسی کو کبھی
کہ میرے بعد تجھے زخم ایسا خاص ملے

0
34
اے زندگی تو مل مجھے ہے کیوں یونہی رکی ہوئی
اگل بھی دے وہ راز بھی وہ بات بھی چھپی ہوئی
میں دیکھ لوں یہ رخ ترا میں بات کو سمجھ تو لوں
کہ جنبشِ نظر تو ہو جو کب سے ہے رکی ہوئی
اے زندگی قریب آ نہ دور جا مجھے دکھا
وہ سوزِ غم کی لذتیں جو وصل کی خوشی ہوئی

0
55
مجھ سے نا ملنے کے وعدے پہ تو قائم رہنا
کون سے رشتے کو میسر یہاں دائم رہنا
تو نے بھی مجھ سے محبت جو کی شرطوں شرطوں
تم نے سیکھا ہے کہاں مجھ سے یوں باہم رہنا
جانے یہ کون سی منزل کا پتہ دیتے ہیں
سارے اوقات میں تیرے یہ عزائم رہنا

0
52
تبدیل ہوا تیرا یہ اندازِ تخاطب
باتیں جو کرے مجھ سے نہیں تھا میں مخاطب
سمجھا رہا تھا مجھ کو اشاروں سے ارادے
بس دیر ہوئی مجھ سے نہ سمجھا میں مطالب
ایسا کیا ہے حال جو چہرے کا کہ مجھ کو
سب پوچھتے تھے حال جو ملتے تھے اقارب

0
63
وہ میرے خدوخال کے نشان مٹ گئے
مکین مٹ گئے اور اب مکان مٹ گئے
جو دھول میں ہے چھپ گئی یہ میری ذات بھی
کھڑے تھے سر پہ جو وہ آسمان مٹ گئے
جو لوگ جانتے مجھے تھے سب کہاں گئے
وہ تھے جو اپنے سارے قدر دان مٹ گئے

46
پھر کوئی جستجو نہیں ہوتی
تم سے جو گفتگو نہیں ہوتی
غم کا پودا نہ ہو جو دل میں تو
پھر کوئی رنگ و بو نہیں ہوتی
نقش جتنا بناؤں تجھ جیسا
تو کبھی ہو بہو نہیں ہوتی

71
رازِ دل مجھ کو وہ اب ایسے بتانے آئے
جیسے احسان کوئی مجھ کو جتانے آئے
وہ بھی کیا وقت تھا آسانیاں تھیں ملنے کی
اب ملاقات کے مشکل یہ زمانے آئے
وحشتوں نے ہیں جو ڈالے یہ بھیانک ڈیرے
دل میں اک بار کوئی جشن منانے آئے

58
جا رہا ہے کس طرف زندگی کا یہ سفر
منزلوں سے بے خبر راستے بھی بے اثر
کیا عجب ہے سلسلہ اسکی بے ثباتی کا
وقت یہ ہے مختصر آج اِدھر تو کل اُدھر
وقت کے حسابوں کا فلسفہ الگ ہی ہے
لمحے سوچنے میں ہی صدیاں جو گئیں گزر

0
65
ہو چکا ہے شوق پورا ان سہاروں سے مجھے
اب نکلنا ہے محبت کے حصاروں سے مجھے
بیچ لہروں ورد کرنے دے فنا کا تو مجھے
خوف آتا ہے محبت کے کناروں سے مجھے
رہبری بھی ہونگے کرتے اور لوگوں کے لئے
کیا کوئی امید ہو گی ان ستاروں سے مجھے

0
116
حال جو یہ بے حال ہے میرا
تجھ سے ملنا محال ہے میرا
بے وفائی ترا ہنر ٹھہرا
وفا کرنا کمال ہے میرا
کتنا تم امتحاں میں ڈالو گے
تجھ سے جائز سوال ہے میرا

0
53
غم کی آتش میں پل رہا ہوں میں
دیکھ مجھ کو کہ جل رہا ہوں میں
ہجر کا ہی تو شاخسانہ ہے
لحظہ لحظہ پگل رہا ہوں میں
نقش اپنے رہے نہیں اپنے
کیسے کیسے بدل رہا ہوں میں

0
59
محبت کا صلہ کچھ بھی میں تم سے مانگتا کب ہوں
فنا اپنی میں تجھ سے میں امیدیں باندھتا کب ہوں
ہو محرم تم شناسا تم مری سوچوں کا محور تم
مری دنیا میں تیرے بن کسی کو جانتا کب ہوں
تری خواہش مقدم ہے مجھے خود سے بھی اے جاناں
ترے آگے تو خود کی بھی کوئی میں مانتا کب ہوں

0
62
سنبھلتے کرتے سنبھل گیا میں
تری محبت میں ڈھل گیا میں
جلائے مجھ کو نہ آگ اب تو
کہ اتنی دفعہ جو جل گیا میں
نہ آنکھ روئے نہ دل جلے اب
کہ دیکھ لو اب بدل گیا میں

0
44
وہ منزلیں کہاں پہ ہیں وہ راستے کدھر گئے
یوں ڈھونڈتے تجھے رہے جہاں جہاں جدھر گئے
ؤہ ہم تو تیری سوچ میں لگے رہے ہیں روز و شب
یہ لوگ کہتے ہیں ہمیں کہ اب کے ہم سدھر گئے
دقیق یہ سفر رہا جو مشکلوں سے طے ہوا
وفا تو تجھ سے کر گئے یوں جان سے مگر گئے

0
70
دعائیں بت کہاں سنتے صدائیں بت کہاں سنتے
ہیں پتھر سے بنے سارے یہ آہیں بت کہاں سنتے
فقط یہ خود کو بہلانے کو ہے یہ کام بس اچھا
وگرنہ علم ہے ہم کو ندائیں بت کہاں سنتے
فقط یہ ظلم ہے جو خود پہ ہے ہم نے روا رکھا
یہ ہے اک خود کلامی سی وفائیں بت کہاں سنتے

0
47
آؤ دیکھو کہ بکھرتے ہیں کیسے
ہجر میں ترے ہم مرتے ہیں کیسے
تم کبھی ترے پروانوں کو دیکھو
تیرے شوق میں جلتے ہیں کیسے
تیرے عشق کی بس اوڑھ کے چادر
خارزاروں میں یہ چلتے ہیں کیسے

0
55
وہ تری برسات اب نہیں ہوتی
تجھ سے ملاقات اب نہیں ہوتی
گفتگو تجھ سے ہوتی ہے میری
ویسے کوئی بات اب نہیں ہوتی
تیرا تخیل ہوتا تھا شب بھر
ویسی کوئی رات اب نہیں ہوتی

0
74
وہ طلب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے
جاں بلب میری جو تھی وہ اب بھی ہے
بھول سکتا ہوں میں کیسے تجھ کو اب
تو سبب جینے کا تھی وہ اب بھی ہے
تیری شرطوں پر محبت کیا کروں
میری شب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے

0
50
تجھ سے ملنے کے بہانے ڈھونڈوں
کھو چکے جو وہ زمانے ڈھونڈوں
میری آنکھوں میں بسے تھے جو سب
ٹوٹے وہ خواب سہانے ڈھونڈوں
لمحے وہ قرب کے ہیں کھو گئے سب
گزرے وہ وقت پرانے ڈھونڈوں

0
58
لفظوں کی تجارت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
تجھ سے جو محبت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
وعدے وحدتوں کے تجھ سے مجھے نہیں کرنے
یہ جو اک حماقت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
اس انا کی قربانی یہ مجھے نہیں کرنا
خود میں جو ملاوٹ ہے یہ مجھے نہیں کرنی

0
50
تُو مجھے چھوڑ گیا اپنی انا کی خاطر
رابطہ توڑ گیا مجھ سے جفا کی خاطر
کیسے رنگین رہا تجھ سے تعلق میرا
خونِ دل ہم نے دیا رنگِ حنا کی خاطر
وہ جو لاتی تھی تری خوشبو مرے آنگن میں
ہم نے وہ یاد رکھا بادِ صبا کی خاطر

0
65
یہ اب جوشِ جنوں تیرا تجھے برباد کر دے گا
کہ کہنا میں تو ہوں تیرا تجھے برباد کر دے گا
کہ ناصح نے ہے سمجھایا محبت تو ہے بربادی
چرا کر یہ سکوں تیرا تجھے برباد کر دے گا
کہ تیرا سوچنا کرنا کہ خوابوں کو جگانا بھی
کہ کیسے میں بنوں تیرا تجھے برباد کر دے گا

0
51
ہم دربدر جو ہو گئے ہیں تیرے واسطے
میرے نصیب سو گئے ہیں تیرے واسطے
تو پھر پلٹ نہ آ سکے ہیں اپنے گھر کو ہم
اپنے نگر سے جو گئے ہیں تیرے واسطے
تھے چل دئے جو تیری محبت کی راہ پر
ہم راستے میں کھو گئے ہیں تیرے واسطے

0
64
ایام ماہ و سال تو اب سب گزر گئے
تیرے وہ سب کمال تو اب سب گزر گئے
جو محورِ خیال تھیں تیری محبتیں
وہ قیمتی خیال تو اب سب گزر گئے
وہ جستجو تری مرے قرب و جوار کی
وہ پوچھنے سوال تو اب سب گزر گئے

0
28
تجھ سے ملا ہوں میں ملتا گیا ہوں
ساتھ ترے پھر میں چلتا گیا ہوں
حسن ترے نے تو جادو کیا ہے
تیری محبت میں کھِلتا گیا ہوں
خود سے مخاطب بھی ہونے لگا ہوں
خود کے بھی اندر میں چلتا گیا ہوں

51
ہر سمت کھو چکی ہے نظر کچھ نہیں آتا
اب تیری محبت کا اثر کچھ نہیں آتا
پھر تیرا یہ احساس ہوا برف کی مانند
جو بجھ چکی ہے آگ شرر کچھ نہیں آتا
ہر چیز پہیلی ہے کہ دھوکہ ہے یہاں پر
اب میری سمجھ میں تو ادھر کچھ نہیں آتا

0
57
تُو جو رکھتا ہے ہنر خوب ستانے والا
ہم بھی رکھتے ہیں جگر سوز کمانے والا
تو نے تو مجھ سے محبت کی قسم کھائی تھی
پھر ترا کیوں ہے یہ انداز زمانے والا
ہم نے کھولا تھا ترے حسن کا عقدہ تجھ پر
پھر نہ آئے گا کوئی راز بتانے والا

0
55
روابط کے سلسلے تو مرا مان بن گئے
شناسا جو تھے کبھی وہ مری جان بن گئے
یہ کیسے کٹی ہیں منزلیں اس پیار میں ترے
جو کارِ گراں تھے مجھ پہ وہ آسان بن گئے
تہی دامنی کو ہم نے چھپایا تھا راہ میں
کہ زادِ سفر بھی مل گیا سامان بن گئے

0
55
تغیر جو لہجے میں آیا ہے تیرے
بتا دے مجھے اب یہ کیا ماجرا ہے
غلط ہوں میں سمجھا یہ میری خطا ہے
سمجھ لوں میں یا پھر کہ تو بے وفا ہے
کہ آتی سمجھ میں نہ تیری ادا ہے
ادھر سے اُدھر مجھکو اک بار کر دے

0
70
الجھنوں کے جنگل میں جینا ہے مجھے کتنا
جو سوال اٹھتا ہے وہ سوال جیسا ہے
ہر سوال کے اندر کچھ جواب جیسا ہے
واجبی سی دنیا میں کیا کمال جیسا ہے
جو نظر میں آتا ہے وہ ہی خواب جیسا ہے
قہقہوں کی حرکت بھی کیوں کسی فغاں سے ہے

0
80
تو نے تو ترکِ تعلق کی ہے ٹھانی کب سے
میں نے در اپنا ہمیشہ ہی کھلا رکھا ہے
ٰدل کی تختی پہ ترا نقش بنا رکھا ہے
جانے کیوں تو نے مجھے ایسے بھلا رکھا ہے
جیسے پتھر سا کوئی دل میں سجا رکھا ہے
تیرے اندازِ ستم سے بھی ہے رغبت مجھ کو

82
ترتیبِ تخیل۔۔۔ایک تازہ ترین تخلیق
مجھے یہ یاد آتا ہے بہت ہی یاد آتا ہے
کہ جب تم اجنبی سے تھے
بہت ہی اجنبی سے تھے
نہیں تھا دور تک تیرا
کوئی نام و نشاں تب تو

0
76
یہ تری محبتیں
فرقتیں یہ قربتیں
وصل کی وہ راحتیں
وہ جنوں کی ساعتیں
وہ تری حرارتیں
تیری وہ حلاوتیں

0
98
اس نے ہے مجھ کو جلایا اب تک
جو مرے پاس نہ آیا اب تک
منتظر ہوں کہ یہ پورا کب ہو
تو نے جو خواب دکھایا اب تک
زندگی گزری سرابوں کے لئے
خود کو خود سے ہے چھپایا اب تک

0
80
جمال تیرا کبھی تھا میرے
خیال مرکز
کبھی جگاتا تھا میرے اندر
جنوں کی کونپل حسیں سا جذبہ
مہک تھی ہر سو محبتوں کی
جو منتظر تھا یوں میں بھی تیرا

74
مجھے خود کے روبرو جو یہ لاتا ہے آئینہ
وہ گزرے دنوں کی یاد دلاتا ہے آئینہ
کبھی دے مجھے خوشی کبھی دیتا نویدِ غم
ہنساتا ہے مجھ کو اور رلاتا ہے آئینہ
محرم مرا بھی ہے یہی ہے رازداں مرا
جو کچھ بھول جاؤں یاد دلاتا ہے آئینہ

0
90
اگر تم کو لگے میری محبت سچ پہ مبنی تھی
تو پھر تم لوٹ آنا اور ذرا بھی دیر مت کرنا
اگر عقدہ کبھی کھل جائے اور احساس ہو جائے
تو میرے پاس آ جانا ذرا بھی دیر مت کرنا
کہ تیرا لوٹ آنا منزلیں آسان کر دے گا
یقیں مانو یقیں کر لو ذرا بھی دیر مت کرنا

0
88
شامِ غم تیرا مداوا میں کروں
شوق پر اشک کا سایہ میں کروں
مجھ کو یاد آتی ہے فرقت کی ادا
منتظر بیٹھو تم آیا میں کروں
تم سے ملنے کی تمنا ہے مجھے
روز مل کے تمہیں جایا میں کروں

0
79
پھر سے کوئی ترے پاس آ جائے گا
مجھ سے جانا تجھے راس آ جائے گا
جب کبھی تجھ سے میں دور ہو جاؤں گا
پھر تجھے میرا احساس آ جائے گا
دل سنبھالے نہ جو سنبھلے گا تیرا پھر
وقت ایسا کوئی خاص آ جائے گا

0
95
آؤ دیکھو کہ بکھرتے ہیں کیسے
ہجر میں ترے ہم مرتے ہیں کیسے
تم کبھی ترے پروانوں کو دیکھو
تیرے شوق میں جلتے ہیں کیسے
تیرے عشق کی بس اوڑھ کے چادر
خارزاروں میں یہ چلتے ہیں کیسے

0
101
میرے سپنوں کا شیرازہ کر کے
مجھ کو ایسے ہی رہ لینے دے دو
اب نہ امید کوئی دو مجھ کو
غم جدائی کا سہہ لینے دے دو
میرے سینے میں جو پلتا ہے غم
اشک آنکھوں سے بہہ لینے دے دو

0
89
الجھ الجھ کے سلجھ رہا ہوں
سلجھ کے میں پھر الجھ رہا ہوں
کبھی کنارا ملے گا مجھ کو
کوئی سہارا ملے گا مجھ کو
کوئی نظارہ ملے گا مجھ کو
مرا ستارہ ملے گا مجھ کو

0
105
ہم نے تو چھوڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا
واسطہ توڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا
کوئی امید میں تم سے نہیں رکھتا ہوں کیا
تم سے منہ موڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا
تیری یادوں کی لڑی توڑ چکا ہوں میں کیا
دل کہیں جوڑ دیا تم سمجھتے ہو کیا

0
83
ہم سے تم اب کوئی نہ آس رکھو
اپنے خوابوں کو اپنے پاس رکھو
تیری تفریق یہ ہے بے معنی
جسے چاہو جسے بھی خاص رکھو
اب یہ جچتا نہیں تجھے بس تُو
مجھ سے کوئی امید و یاس رکھو

0
80
تُو ساتھ تھا تو یہ معاملہ تھا
اُس قید میں آزاد سلسلہ تھا
اک خشک ٹہنی پر خزاں کی رُت میں
بیٹھی تھی بلبل پھول بھی کھلا تھا
خاموش رہ کر بھی بیاں ہو جاتا
لب بند تھے اظہار برملا تھا

0
89
مجھ سے نا ملنے کے وعدے پہ تو قائم رہنا
کون سے رشتے کو میسر یہاں دائم رہنا
تو نے بھی مجھ سے محبت جو کی شرطوں شرطوں
تم نے سیکھا ہے کہاں مجھ سے یوں باہم رہنا
تیری اغراض سے تھی مجھ کو غرض کیا ہونی
تیری الفت سے جڑا مجھ کو تھا تاہم رہنا

0
116
تحقیرِ محبت ہے اگر ضبط نہیں ہے
عجلت کا محبت سے تو کچھ ربط نہیں ہے
بنیاد میں تیرے ہو نہ اکرام کا عنصر
تو اور کیا ہے یہ اگر خبط نہیں ہے
دل دے چکے ہیں ان کو تو آوارگی میں ہم
انکار پہ راضی تو یہ کمبخت نہیں ہے

0
91
میں قلب و جاں کا اب تو قرار چاہتا ہوں
میں خودستائشی سے فرار چاہتا ہوں
یہ سوچ کی جو گردش ہے خود کے دائرے میں
خیال پر میں اپنے نکھار چاہتا ہوں
تُو اور میں کی باتیں عجیب تر ہیں یہ سب
میں تُو ہی تُو کا تو اب شرار چاہتا ہوں

0
88
بات ایسی تو نہ تھی تم نے بڑھائی جیسے
ایسا کب کرتے ہیں تم نے جو نبھائی جیسے
تم مرے شوق کی تحقیر کئے جاتے ہو
پیار کی ہم سے کراتے ہو گدائی جیسے
تیری ہر بات کا احساس رہا ہے مجھ کو
میری ہر بات کہ لگتی ہو پرائی جیسے

0
103
یہ مرے شہر ہوئے شہرِ خموشاں
نہ بچا گل نہ رہا کوئی گلستاں
وہ ترا عہدِ حسیں جو ہو گیا گم
نہ ترا وصل نہ کوئی شبِ ہجراں
نہ وہ راتوں کی طوالت وہ مرا غم
نہ مری آنکھ نہ آنسو نہ دل و جاں

0
87
وہ تری برسات اب نہیں ہوتی
تجھ سے ملاقات اب نہیں ہوتی
گفتگو تجھ سے ہوتی ہے میری
ویسے کوئی بات اب نہیں ہوتی
تیرا تخیل ہوتا تھا شب بھر
ویسی کوئی رات اب نہیں ہوتی

95
اس ہجر میں وہ ہجر کا سا وہ مزا نہیں
ملنی جو تھی وہ عشق میں یہ وہ سزا نہیں
اب دوریاں بھی مجھ کو تو بے تاب نا کریں
اب ملنے کی بھی دیتا ہوں تجھ کو صدا نہیں
احساس تیرے ہونے کا اب ہے نہیں مجھے
چہرے سے تیرے میری محبت بھی وا نہیں

0
97
بخت اپنے ہیں کہاں تجھ کو یوں پانے والے
زیست کے دکھ ہیں کہ اندر سے جلانے والے
کیسے بکھرا ہے خیالوں کا تسلسل میرا
کیسے سب چھوڑ گئے ساتھ نبھانے والے
اپنے دامن میں ہے کانٹوں کا بسیرا اب تو
ہو گئے اب وہ جدا باغ لگانے والے

0
82
آنکھوں میں میری نیند نہ آئے ہے رات بھر
بس یاد تیری مجھ کو ستائے ہے رات بھر
جادو سا تیری مست نگاہی نے کر دیا
سانسوں میں تیری خوشبو جگائے ہے رات بھر
کل ہاتھ میرے ہاتھ پہ تھا رکھ دیا تو نے
اب لمس تیرے ہاتھ کا آئے ہے رات بھر

78
وہ منزلیں کہاں پہ ہیں وہ راستے کدھر گئے
یوں ڈھونڈتے تجھے رہے جہاں جہاں جدھر گئے
ؤہ ہم تو تیری سوچ میں لگے رہے ہیں روز و شب
یہ لوگ کہتے ہیں ہمیں کہ اب کے ہم سدھر گئے
یہ تم کو دے جو بھی خبر یہ زلف کی بے چینیاں
یوں رہ کے تیری یاد میں قدم قدم نکھر گئے

118
وہ ربط جو تھا سانس کا وہ ربط بھی گنوا دیا
وہ تم نے میرے شوق کا ہر آشیاں جلا دیا
وہ لفظ اب نہیں رہے وہ بات بھی نہیں رہی
بیان کا وہ راستہ تو تم نے اب مٹا دیا
وہ تیرے آنے سے مجھے جو مل گئی تھی روشنی
وہ تُو گیا تو کیا گیا وہ دیپ بھی بجھا دیا

102
وہ طلب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے
جاں بلب میری جو تھی وہ اب بھی ہے
بھول سکتا ہوں میں کیسے تجھ کو اب
تو سبب جینے کا تھی وہ اب بھی ہے
تیری شرطوں پر محبت کیا کروں
میری شب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے

0
77
دل کا یہ حال میں اب تم پہ عیاں کیسے کروں
اپنے لفظوں کو میں اب شعلہ بیاں کیسے کروں
تیرے اطوار نے ہے مجھ کو بنایا پتھر
میرے آنگن سے میں پھولوں کا گماں کیسے کروں
تیری یادوں نے کیا ہے کیا حالِ دل اب
تیری سوچوں کی میں تدفین کہاں کیسے کروں

0
98
دل کا یہ حال میں اب تم پہ عیاں کیسے کروں
اپنے لفظوں کو میں اب شعلہ بیاں کیسے کروں
تیرے اطوار نے ہے مجھ کو بنایا پتھر
میرے آنگن سے میں پھولوں کا گماں کیسے کروں
تیری یادوں نے کیا ہے کیا حالِ دل اب
تیری سوچوں کی میں تدفین کہاں کیسے کروں

115
عشق میں فناء کا انتخاب کر لیا
ناخدا کے قرب سے اجتناب کر لیا
پھر کسی سراب کی سمت میں نہ جاؤں گا
عہد تجھ سے دوریوں کا جناب کر لیا
عہد و پیماں ڈھارسیں یہ تکلفات ہیں
کیوں وفا کے جرم کا ارتکاب کر لیا

0
137
عشق میں فناء کا انتخاب کر لیا
ناخدا کے قرب سے اجتناب کر لیا
پھر کسی سراب کی سمت میں نہ جاؤں گا
عہد تجھ سے دوریوں کا جناب کر لیا
عہد و پیماں ڈھارسیں یہ تکلفات ہیں
کیوں وفا کے جرم کا ارتکاب کر لیا

0
97
وہ میرے خدوخال کے نشان مٹ گئے
مکین مٹ گئے اور اب مکان مٹ گئے
وہ دھول میں چھپی ہوئی ہے میری ذات تو
وہ تھے جو اپنے سارے قدر دان مٹ گئے
جو چھوڑ کر چلے گئے ہو کس کے آسرے
وہ تجھ پہ جو کئے تھے سب ہی مان مٹ گئے

0
118
تم سے ملنا کبھی اتنا بھی تو دشوار نہ تھا
جیسا اب ہوں کبھی اتنا بھی تو بیمار نہ تھا
میرے ایام گزرتے ہیں اذیت میں ہی کیوں
زندگی سے کبھی ایسے بھی تو دوچار نہ تھا
کیسے فرقت کے شب و روز جو گم ہو گئے سب
اس جدائی کے لئے میں بھی تو تیار نہ تھا

0
116
پکار وہ تڑپ جواں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ چاہتوں کی داستاں کہاں چلی گئی ہے سب
وہ خواب تھا خیال تھا کہ خوشنما سا جال تھا
لگن تھی وہ جو جانِ جاں کہاں چلی گئی ہے سب
سخن ترا تھا اک کمال لازوال ادا تری
وہ اب یہاں تو اب وہاں کہاں چلی گئی ہے سب

0
103
رازِ دل مجھ کو وہ اب ایسے بتانے آئے
جیسے احسان کوئی مجھ کو جتانے آئے
خواب کی طرح گزرتے ہیں شب و روز اپنے
اس جہاں میں تو کیا خواب کمانے آئے
پھر کبھی اس نے تکلم نہ کیا تھا مجھ سے
وہی اک بار جو دل کو کبھی بہلانے آئے

0
103
بے تیر کماں ہوتا گر تم نہیں ہوتے
عبرت کا نشاں ہوتا گر تم نہیں ہوتے
آنکھوں سے تری دیکھوں ہنگامہِ فردا
یہ کیسا جہاں ہوتا گر تم نہیں ہوتے
جس طرح جمی ہو کوئی برف مرے پر
ویسا یہ گماں ہوتا گر تم نہیں ہوتے

0
126
زادِ راہ جو تھا وہ سب قلیل کر دیا
عشق نے تو درد میرا طویل کر دیا
اجنبی تھا ہمسفر زندگی کی راہ میں
وقت نے وہ شخص میرا کفیل کر دیا
وصل کے جو لمحے تھے ہو گئے ہیں خواب سب
مجھ کو تیرے ہجر نے اب علیل کر دیا

117
تنہائیوں کے ڈر سے تنہا رہا ہوں میں
ان چاہتوں کے در سے سہما رہا ہوں میں
بنتا رہا ہوں گنجل سوچوں کی راہ پر
ان عادتوں میں اپنی سادہ رہا ہوں میں
موجوں کو سر اٹھانے کی حسرتیں رہیں
جذبوں میں اس طرح سے پنہاں رہا ہوں میں

0
90
تشہیرِ تعلق نے دیا کچھ بھی نہیں ہے
اک درد سا ہے اور ملا کچھ بھی نہیں ہے
اس سوچ میں رہتا تھا تلاطم جو ہمیشہ
وہ سوچ بیاباں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
چلتا رہا ہوں اک ترے جو خواب کے پیچھے
وہ خواب ہی تھا اور صلہ کچھ بھی نہیں ہے

0
127
آنکھوں میں جو بادل ہے برستا بھی نہیں ہے
سانسوں کا جو آنچل ہے سرکتا بھی نہیں ہے
کس آگ میں جھونکا ہے تری دید نے مجھکو
یہ وقت رکا ہے کہ گزرتا بھی نہیں ہے
اب رقص میں رہتی ہے تری سوچ مرے میں
فرقت کا دیا اب کہیں جلتا بھی نہیں ہے

0
133
مجھ پہ موسم کا اثر کچھ بھی نہیں
ہو نہ تیری تو خبر کچھ بھی نہیں
تیری چاہت سے کھِلا آنگن یہ
نہیں ہے تُو تو یہ گھر کچھ بھی نہیں
تو نہ ہو تو مرا مقصد کیا ہے
شب جو گزرے بھی سحر کچھ بھی نہیں

0
98
ہم میں جھگڑے کی وجہ کچھ بھی نہیں
قربتوں نے بھی دیا کچھ بھی نہیں
دور تھا تجھ سے تو ایسا ہی تھا
تجھ سے مل کر بھی ملا کچھ بھی نہیں
ہم نے تو لاکھ بتایا تجھ کو
تیرے میرے میں رہا کچھ بھی نہیں

0
115
جا رہا ہے کس طرف زندگی کا یہ سفر
جان پایا خود کو میں نہ رکھ سکا تری خبر
کیا عجب ہے سلسلہ ہر کڑی الگ الگ
وقت یہ ہے مختصر آج اِدھر تو کل اُدھر
ضبط و خبط کا مزہ کھو چکے ہیں ہم تو اب
خار میں چبھن نہیں پھول بھی ہیں بے اثر

0
103
چاندنی میں یہ اندھیرا سا کیوں ہوتا ہے
گر نہیں میرا تو میرا سا کیوں ہوتا ہے
رتجگی نیم وا آنکھوں میں آ جائے جب
رات کے وقت سویرا سا کیوں ہوتا ہے
ساتھ تو تیرا جو رہتا ہے ہر دم ہر سو
گر نہیں ہے تو وہ تیرا سا کیوں ہوتا ہے

0
142
اے زندگی تو مل مجھے ہے کیوں یونہی رکی ہوئی
اگل بھی دے وہ راز بھی وہ بات بھی چھپی ہوئی
میں دیکھ لوں یہ رخ ترا میں بات کو سمجھ تو لوں
اٹھا سکوں میں وہ نظر جو کب سے ہے جھکی ہوئی
اے زندگی قریب آ نہ دور جا مجھے دکھا
وہ لذتیں خوشی کی سب وہ سوچ بھی دکھی ہوئی

0
139
تجھ سے ملنے کے بہانے ڈھونڈوں
کھو چکے جو وہ زمانے ڈھونڈوں
میری آنکھوں میں بسے تھے جو سب
ٹوٹے وہ خواب سہانے ڈھونڈوں
گم ہوئی وہ جو مری ساعتِ قرب
گزرے وہ وقت پرانے ڈھونڈوں

81
کشتیاں ساری ہی اس پار کہیں چھوڑ آئے
تیرے ادوار سے نکلوں تو کوئی دور آئے
مجھ کو معلوم نہیں ہے کوئی دنیا ترے بن
تو مری سوچ سے نکلے تو کوئی اور آئے
میں نے سوچا بھی نہیں اور یہ ممکن بھی نہیں
مری سوچوں میں ترے بعد کوئی موڑ آئے

0
88
مجھ سے نا ملنے کے وعدے پہ تو قائم رہنا
کون سے رشتے کو میسر یہاں دائم رہنا
تو بھی منسوب رہا مجھ سے شرائط کے عوض
تم نے سیکھا ہے کہاں مجھ سے یوں باہم رہنا
تیری اغراض سے تھی مجھ کو غرض کیا ہونی
تیری الفت سے جڑا مجھ کو تھا تاہم رہنا

0
116
میں قلب و جاں کا اب تو قرار چاہتا ہوں
میں خودستائشی سے فرار چاہتا ہوں
یہ گردشیں ہیں خود کے جو دائروں میں سب
خیال پر میں اپنے نکھار چاہتا ہوں
تُو اور میں کی باتیں عجیب تر ہیں یہ سب
میں تُو ہی تُو کا تو اب شرار چاہتا ہوں

0
132
تحقیرِ محبت ہے اگر ضبط نہیں ہے
عجلت کا محبت سے تو کچھ ربط نہیں ہے
بنیاد میں تیرے ہو نہ اکرام کا عنصر
بس اور کیا ہے یہ گر یہ خبط نہیں ہے
دل دے چکے ان کو نادانستگی میں ہم
انکار پہ راضی یہ کمبخت نہیں ہے

0
179
شاید وہ میرے شوق کی شدت نہیں رہی
جو اس کو اب وہ ہم سے محبت نہیں رہی
میرا ہی وسوسہ تھا جو اب سچ سا ہو گیا
اس کی اداؤں میں تو وہ چاہت نہیں رہی
میں ڈوب چکا جو ترے دریا میں اس قدر
ساحل کو دیکھنے کی تو جرات نہیں رہی

0
86
تُو ساتھ تھا تو یہ معاملہ تھا
اُس قید میں آزاد سلسلہ تھا
اک خشک ٹہنی پر خزاں کی رُت میں
بیٹھی تھی بلبل پھول بھی کھلا تھا
خاموش رہ کر بھی بیاں ہو جاتا
لب بند تھے اظہار برملا تھا

0
122
چاہ سے ہم فناہ تک پہنچے
یہ مرض اب دعا تک پہنچے
منتظرِ منزل ہوں میں
تیرگی انتھا تک پہنچے
تیرا وصل نہیں مقصود
عشق اب جزا تک پہنچے

0
135
تیری نظر میں نشہ ہے تری باتوں میں ہے نشہ
صبحوں میں نشہ ہے تری راتوں میں ہے نشہ
شامیں جو ہیں معطر تیری یادوں سے میری
خلوت میں نشہ ہے ملاقاتوں میں ہے نشہ
کھل کے بیاں ہوتا ہے احوالِ قرب و وصل
یہ عقدہ کھل چکا کہ چاہتوں میں ہے نشہ

0
153
تیری نظر میں نشہ ہے تری باتوں میں ہے نشہ
صبحوں میں نشہ ہے تری راتوں میں ہے نشہ
شامیں جو ہیں معطر تیری یادوں سے میری
خلوت میں نشہ ہے ملاقاتوں میں ہے نشہ
کھل کے بیاں ہوتا ہے احوالِ قرب و وصل
یہ عقدہ کھل چکا کہ چاہتوں میں ہے نشہ

0
107
ترکِ تعلق
غمِ ہستی سے کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
ترا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے دنیا بھی کیا دِکھتی ہو گی

0
180
میرے ہونے سے کوئی فرق اگر نہیں پڑتا
تم مجھے کھونے کا بھی ویسے تجربہ کر لے
میرے اندیشوں کو یقیں کا لبادہ دے کر
میرے بغیر ہی زندگی کا تُو تہیہ کر لے
تیری ضرورت سے میں گر یوں زیادہ ہوں تو
بس کسی اور کے نام مجھے تُو عطیہ کر لے

0
2
146
فرصت کے لمحات میں فرصت نہیں ملی
اے زندگی تجھ سے بھی قربت نہیں ملی
گزرے ماہ و سال کسی کے لیے ہی جو
گزرے یوں سب ایام کی اجرت نہیں ملی
بسرے ہوئے لمحات کو سنبھال تو لیں ہم
جس طرح سے ملنی تھی وہ شہرت نہیں ملی

0
197
تم مجھے ٹُوٹ کے چاہنے کی بس اجازت دے دو
یارا خود میں بس جانے کی اجازت دے دو
ترتیب اپنی سے تم مجھ کو بھی مرتب کر دو
خود کی دنیا میں آ جانے کی اجازت دے دو
میسر قربِ یار کی اک ساعت ہی ہو جائے
مے نہ دو بس مے خانے کی ہی اجازت دے دو

0
2
206
گر گیا میں تو اٹھانے کون آیا
چل پڑا میں تو گرانے کون آیا
زیست میں شامل ہوا جب سے ترا عشق
نغمہِ غم پھر سنانے کون آیا
تجھ کو منانے کی تگ و دو تھا کرتا
روٹھا جب میں تو منانے کون آیا

0
369
گر گیا میں تو اٹھانے کون آیا
چل پڑا میں تو گرانے کون آیا
زیست میں شامل ہوا جب سے ترا عشق
نغمہِ غم پھر سنانے کون آیا
ہمایوں

0
152
برگِ تر کیوں سوکھنے کے بہانے مانگے
جب وہ شخص بھی روٹھنے کے بہانے مانگے
ترکِ خیال پر اسکو کمال ہے سنا ہے
حال ان کا من پوچھنے کے بہانے مانگے
لاکھ بھلانے کی ان کو سعی کر لوں میں
سوچ ان کو بس سوچنے کے بہانے مانگے

0
186
دیدہ و لب و رخسار کا ذکر
ہر سُو چلا مرے یار کا ذکر
صبح نَو شامِ غم شبِ تاریک
ہر پہر اس کی گفتار کا ذکر
ہے مری سوچ میں دنیا ساری
میری دنیا میں ہے پیار کا ذکر

0
125
غمِ ہستی سے کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
ترا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے دنیا بھی کیا دِکھتی ہو گی
بن ترے دنیا کا نظارہ کر لوں

0
150
لفظوں کی تجارت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
تجھ سے جو محبت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
وعدے وحدتوں کے تجھ سے مجھے نہیں کرنے
یہ جو اک حماقت ہے یہ مجھے نہیں کرنی
اس انا کی قربانی یہ مجھے نہیں کرنا
خود میں جو ملاوٹ ہے یہ مجھے نہیں کرنی

131
حالاتِ ہجر نے کیا ہے اس سے روشناس
لمحاتِ وصل سے کیا حاصل حصول کیا
یہ قرب کی سمجھ فرقت میں ہے آئی اب
آغوشِ یار سے بڑھ کر ہے وصول کیا
ہمایوں

114
ہر سمت میں وہ چہرہ ہی کیوں ہے
تو ہے کہ یہ سب میرا جنوں ہے
بے چین وہ ہم کو کرتا تھا جو
آرام ہے وہ میرا سکوں ہے
ہمایوں

127