| اب کوئی بات نہیں باقی دسمبر والی |
| میری حالت تو ہے ویسی ہی نومبر والی |
| تیری طاقت کا ہی بولے ہے جو طوطی اب بھی |
| دل پہ سختی ہے ترے اب بھی ستمبر والی |
| تیرا وہ طرزِ تغافل بھی ہے پتھر پہ لکیر |
| نہ عنایت نہ تری خُو ہے ستم گر والی |
| اب بھی مخفی ہی رہے ساری جو روداد مری |
| نہ کوئی بات نکالوں گا میں اندر والی |
| کیوں مقید ہے تُو شکوے میں ہمایوں اب بھی |
| کیوں کوئی بات نہیں تجھ میں قلندر والی |
| ہمایوں |
معلومات