| تم سے ملنا کبھی اتنا بھی تو دشوار نہ تھا |
| جیسا اب ہوں کبھی اتنا بھی تو بیمار نہ تھا |
| خود ہی طاری ہے کیا ہم نے جفاؤں کو تری |
| ایسا مہلک تو کبھی بھی یہ ترا وار نہ تھا |
| میرا جینا بھی مجھے ایسے لگے جینا نہیں |
| زندگی سے کبھی ایسے بھی تو دوچار نہ تھا |
| میرے ایام گزرتے ہیں اذیت میں یہاں |
| حالتوں سے مری واقف کبھی تو یار نہ تھا |
| کیسے قربت کے شب و روز ہیں گزرے میرے |
| اس جدائی کے لئے میں بھی تو تیار نہ تھا |
| آپ اپنا بھی مجھے لگ رہا ہے بوجھ بہت |
| اپنی دنیا سے میں اتنا بھی تو بیزار نہ تھا |
| منزلیں تم نے بتائی ہیں جنوں کی مجھ کو |
| مجھ کو مستی سے کبھی ویسے سروکار نہ تھا |
| چشمِ نم ہی تو مقدر ہے ہمایوں کا میاں |
| اس کے دکھ کا کوئی ویسے ہی تو پرچار نہ تھا |
| ہمایوں |
معلومات