| آنکھوں میں جو بادل ہے برستا بھی نہیں ہے |
| سانسوں کا جو آنچل ہے سرکتا بھی نہیں ہے |
| ہر وقت سلگتی ہے یہ خواہش کی اذیت |
| بجھتا بھی نہیں شعلہ بھڑکتا بھی نہیں ہے |
| کس آگ میں جھونکا ہے تری دید نے مجھکو |
| یہ وقت رکا ہے کہ گزرتا بھی نہیں ہے |
| ہر سمت اندھیرا ہے شبِ ہجر میں جاناں |
| قربت کا دیا جو کہیں جلتا بھی نہیں ہے |
| سپنے میں ترے اور جو وارد ہوا کوئی |
| پھر جی تو مرا اب کہیں لگتا بھی نہیں ہے |
| احوالِ دل و جان بتاؤں بھی میں کس کو |
| اس شہر میں کوئی جو شناسا بھی نہیں ہے |
| اس دل نے بھی پکڑا ہے عجب طور ترے بن |
| رکتا بھی نہیں اور یہ چلتا بھی نہیں ہے |
| میں لاکھ دلیلوں سے جو سمجھاتا ہوں اسکو |
| دل بھی تو عجب ہے کہ بدلتا بھی نہیں ہے |
| وہ شخص ترے عشق میں گھائل ہوا ایسا |
| گرتا بھی نہیں اور سنبھلتا بھی نہیں ہے |
| باتیں تو کرے مجھ سے محبت گی زباں میں |
| اور میری محبت کو سمجھتا بھی نہیں ہے |
| قسمت میں ہمایوں کے ترا ساتھ کہاں ہے |
| ملنا بھی نہیں اور تو ملتا بھی نہیں ہے |
| ہمایوں |
معلومات