| وہ طلب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے |
| جاں بلب میری جو تھی وہ اب بھی ہے |
| بھول سکتا ہوں میں کیسے تجھ کو اب |
| تو سبب جینے کا تھی وہ اب بھی ہے |
| تیری شرطوں پر محبت کیا کروں |
| میری شب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے |
| سوچ پر ہر وقت ہے تیرا بسر |
| میری تب تُو جان تھی وہ اب بھی ہے |
| گل کی خوشبو اب بھی مہکاتی مجھے |
| وہ عجب مستی جو تھی وہ اب بھی ہے |
| یہ ہمایوں کرتا ہے تجھ پر فخر |
| وہ جو عزت تیری تھی وہ اب بھی ہے |
| ہمایوں |
معلومات