| جانے کیوں تو نے مجھے ایسے بھلا رکھا ہے |
| جیسے پتھر سا کوئی دل پہ سجا رکھا ہے |
| میں نے در اپنا ہمیشہ ہی کھلا رکھا ہے |
| ٰدل کی تختی پہ ترا نقش بنا رکھا ہے |
| تیرے اندازِ ستم سے بھی ہے رغبت مجھ کو |
| تیری ہر چیز سے رکھنی ہے محبت مجھ کو |
| اب ترے درد کو ہی پال کے رکھنا چاہوں |
| تیرے رستوں میں کہیں اب تو بھٹکنا چاہوں |
| میں ترے ہجر کی آتش میں سلگنا چاہوں |
| میں تری یاد میں اب حد سے گزرنا چاہوں |
| ہم نے جو غم کا محبت میں سلیقہ سیکھا |
| بس اسی طور سے جینے کا طریقہ سیکھا |
| سانسیں رکتی ہیں ترا ذکر جہاں آتا ہے |
| جیسے فرقت میں بھی قربت کا گماں آتا ہے |
| میرے اندر سے بھی اک شورِ فغاں آتا ہے |
| عہد گزرا ہے جو وہ پھر سے کہاں آتا ہے |
| مجھ کو افسوس نہیں تجھ سے محبت کر کے |
| میں تو خوش ہوں تری یادوں پہ قناعت کر کے |
| کاش تُو اپنی وفاؤں کو سنبھالے رکھتا |
| اپنے انداز تُو اوروں سے نرالے رکھتا |
| دل کے در پر تُو محبت کے ہی تالے رکھتا |
| بیج آنگن میں وفاؤں کے تُو ڈالے رکھتا |
| پھر بچھڑنا بھی مجھے تم سے نہ گھائل کرتا |
| دل کو پھر بھی میں دھڑکنے پہ یوں مائل کرتا |
| اب مجھے وقت کی رفتار سے ڈر لگتا ہے |
| عمر کے ڈھلنے کا شاید یہ اثر لگتا ہے |
| خستہ دیواریں ہیں در بھی کہاں در لگتا ہے |
| میں جہاں رہتا ہوں میرا کہاں گھر لگتا ہے |
| کاسہِ وقت میں میرے تو بچا کچھ بھی نہیں |
| چند سانسوں کے سوا مجھ میں رہا کچھ بھی نہیں |
| ہمایوں |
معلومات