الجھنوں کے جنگل میں جینا ہے مجھے کتنا |
جو سوال اٹھتا ہے وہ سوال جیسا ہے |
ہر سوال کے اندر کچھ جواب جیسا ہے |
واجبی سی دنیا میں کیا کمال جیسا ہے |
جو نظر میں آتا ہے وہ ہی خواب جیسا ہے |
قہقہوں کی حرکت بھی کیوں کسی فغاں سے ہے |
کیوں بہاروں کا بندھن رہتا اس خزاں سے ہے |
وقت کے سہاروں کی مجھ کو کب ضرورت ہے |
چاند اور ستاروں کی مجھ کو کب ضرورت ہے |
وقت کے سمندر میں میں تو ایک قطرہ ہوں |
صدیوں کی مسافت ہے میں کہاں پہ رہتا ہوں |
جان اپنی کو تو میں خود ہی ایک خطرہ ہوں |
میں چلا جہاں سے تھا میں وہاں پہ رہتا ہوں |
کیسے اس سفر کو میں اب سفر بھی کہتا ہوں |
ہمایوں |
معلومات