| پکار وہ تڑپ جواں چلی گئی ہے سب کہاں |
| وہ چاہتوں کی داستاں چلی گئی ہے سب کہاں |
| وہ راستے وہ منزلیں وہ منزلوں کی چاہتیں |
| ملن کی وہ تڑپ جواں چلی گئی ہے سب کہاں |
| وہ خواہشِ وصال بھی جو تھی نشانِ زندگی |
| جو لگ رہی تھی جاوداں چلی گئی ہے سب کہاں |
| وہ رابطے وہ چاہتیں عجب وہ دل کی حالتیں |
| جو تھیں ہمارے درمیاں چلی گئی ہے سب کہاں |
| وہ خواب تھا خیال تھا کہ خوشنما سا جال تھا |
| لگن تھی وہ جو جانِ جاں چلی گئی ہے سب کہاں |
| سخن ترا تھا اک کمال لازوال ادا تری |
| وہ اب یہاں تو اب وہاں چلی گئی ہے سب کہاں |
| وہ تیرے جانے سے مری یہ زندگی بدل گئی |
| وہ چاشنیِ دل و جاں چلی گئی ہے سب کہاں |
| وہ خود سے جو سوال تھا سوال ہی وہ رہ گیا |
| وفا تری کی وہ اماں چلی گئی ہے سب کہاں |
| ہمایوں کی وہ لذتیں فنا ہوئی ہیں تیرے بعد |
| وہ تیری میری داستاں چلی گئی ہے سب کہاں |
| ہمایوں |
معلومات