| ہم نے دیکھا ہے وفا کچھ بھی نہیں |
| تیری قربت نے دیا کچھ بھی نہیں |
| تجھ سے جو دور تھا ایسا ہی تھا میں |
| تجھ سے مل کر بھی ملا کچھ بھی نہیں |
| ٹوٹنا عشق میں تو بنتا ہی تھا |
| جو نہ ٹوٹے وہ انا کچھ بھی نہیں |
| اس نے لوگوں کا برا حال کیا |
| تُو نے تو اس میں سہا کچھ بھی نہیں |
| تو نے باندھے تھے کئی عہد یہاں |
| کیسے کہہ دوں کہ گلہ کچھ بھی نہیں |
| اب تو اک رسم ہے گفتار کی بس |
| تیرے میرے میں رہا کچھ بھی نہیں |
| یہ محبت بھی تردد ہی ہے اب |
| اور جذبے کی عطا کچھ بھی نہیں |
| ہو ملاقات بھی اب کس کے لئے |
| وصل تیرے میں رہا کچھ بھی نہیں |
| اب جفاؤں سے بھی کیا فرق پڑے |
| جرم کیسا جو سزا کچھ بھی نہیں |
| وہ ہمایوں رہا خود میں ہی مگن |
| اس میں تیری تو خطا کچھ بھی نہیں |
| ہمایوں |
معلومات