رازِ دل مجھ کو وہ اب ایسے بتانے آئے
جیسے احسان کوئی مجھ کو جتانے آئے
وہ بھی کیا وقت تھا آسانیاں تھیں ملنے کی
اب ملاقات کے مشکل یہ زمانے آئے
وحشتوں نے ہیں جو ڈالے یہ بھیانک ڈیرے
دل میں اک بار کوئی جشن منانے آئے
ویسے آتا وہ نہیں میری خبر لینے کو
آ بھی جائے وہ کسی بھی جو بہانے آئے
کتنی ابتر ہے مرے کمرے کی حالت دیکھے
وہ کبھی آئے مرے گھر کو سجانے آئے
خواب کی طرح گزرتے ہیں شب و روز اپنے
ہم بھی کیا جیتے ہیں کیا خواب کمانے آئے
پھر کبھی اس نے تکلم نہ کیا تھا مجھ سے
وہ جو اک بار مرے دل کو جلانے آئے
تیرے انداز سے ظاہر ہے یہ جانا تیرا
کیسی امید ہے جو مجھ کو دلانے آئے
گر نہیں مجھ سے یوں وابستہ کوئی جذبہ تو
ایسے کیوں مجھ کو تم اس بار منانے آئے
اے ہمایوں یہ ترا ترکِ تعلق کرنا
پھر بھی تو چاہے کہ وہ تجھ کو بلانے آئے
ہمایوں

11