داستاں پھر کوئی اپنے سے عبارت کر لیں
پھر سے اک بار کہیں کچھ تو شرارت کر لیں
پھر سے بنیاد محبت کی کہیں رکھتے ہیں
پھر سے مل کر اسے ہم ایک عمارت کر لیں
آؤ مل کر یوں بسا لیتے ہیں دنیا اپنی
عہد و پیمان کی پھر ایک جسارت کر لیں
قربتوں کے کوئی ہم پھر سے تقاضے دیکھیں
فرقتوں میں بھی کہیں پھر سے مہارت کر لیں
صدیاں بھی تو یہاں بس چشمِ زدن میں گزریں
رہ گیا وقت جو اب پاس طہارت کر لیں
ہم بھی کچھ دے کے یہاں لینے کا وعدہ کر لیں
باہمی مل کے کچھ آپس میں تجارت کر لیں
ہم تہی دست ہیں خالی ہے جو دل غم سے یہاں
دل کی غربت کو بدل کر اب امارت کر لیں
عہدِ رفتہ کے مناظر بھی نظر میں آئیں
اولیں اپنی محبت کی زیارت کر لیں
بعد مرنے کے ملے گا کہاں یہ درد و غم
خود کو دنیا میں ہمایوں جو بشارت کر لیں
ہمایوں

0
12