| یہ جو مصلحت کی ادا تری ہے یہ عشق میں تو روا کہاں |
| یہ جو سوچ سوچ چلے ہو تم جو فنا نہیں تو وفا کہاں |
| جو نہ دل کو میرے یوں بھا سکے جو یوں آنکھ میں نہ سما سکے |
| جو نہ مجھ کو بہلا سکے کبھی تو یہ دلبری کی ادا کہاں |
| وہ ہلا کے رکھ دے جو دنیا کو اٹھے ایسی ہوک جو دل سے یوں |
| جو نہ دل سے اٹھ کے جلائے دل تو وہ دل کی ہے یہ صدا کہاں |
| یہ تو بات آگے کی ہے کہیں نہ یہ عزم مانگے نہ حوصلہ |
| یہ تو ہے عنایتِ ایزدی جو جلا یہ شعلہ جلا کہاں |
| یہ جو شرق و غرب کے راز ہیں نہ رہیں گے یہ تو چھپے ہوئے |
| یہ تلاش خود کی تو خود میں ہے اسے کھوجتا ہے رہا کہاں |
| یہ سفر جو میرا ہے زیست کا ہے سوالوں نے تو تھکا دیا |
| یہ عجب ہے راہ بھی جستجو کی رکا کہاں ہے چلا کہاں |
| وہ جو چیز گم تھی یہیں کہیں وہی چیز مجھ کو نہ مل سکی |
| تو بھی ڈھونڈتا جو اسے کہاں تجھے اس کو ملنا تو تھا کہاں |
| یہ ہمایوں عشق کی بات ہے نہ ملے ملے تو بھی کیا ہوا |
| یہ تو بے خودی کا ہے فلسفہ تُو ملا بھی ہے تو ملا کہاں |
| ہمایوں |
معلومات