کبھی جو کہتے تھے لوگ مجھ سے |
سنبھال رکھنا محبتوں کو |
اتار رکھنا انا کی چادر |
کہ رابطوں میں پہل ہی کرنا |
خیال رکھنا کہ ٹوٹ پائے |
نہ رابطوں کی لڑی یہ دلکش |
کہ گفتگو میں خیال رکھنا |
کہ لفظ کوئی نہ ہو کبھی بھی |
نہ سخت لہجہ بیان رکھنا |
ادھر ادھر کی نہ بات کرنا |
یوں گفتگو میں خیال رکھنا |
جو بات نکلے لبوں سے تیرے |
وہ بات اسکی طلب میں ہو جو |
وہ اس کے دل کو |
بیاں کرے جو |
خیال اس کے |
جواں کرے جو |
دھری رہیں یہ نصیحتیں سب |
بھلا دیا ہے جو اس نے مجھ کو |
سلا دیا ہے نصیب میرا |
کمال کی یہ ادا ہے جاناں |
جو بالاتر ہے مری فہم سے |
وہ سب نصیحت وہ ساری باتیں |
کہ جن کا ہم نے تھا پال رکھنا |
کہ جن کا ہم نے خیال رکھا |
وہ احتیاطوں کا کیا ہے کرنا |
کہ رائگاں ہے سبھی مشقت |
نہ سختیوں کا ثمر ملا کچھ |
اجڑ گیا ہے بکھر گیا ہے |
مری امیدوں کا باغ سارا |
کہ اب میں سوچوں یہ کیا ہوا ہے |
وہ کس کے آنگن کا پھول ہے اب |
کہ میرا آنگن اجاڑ کر کے |
ہمایوں |
معلومات