ترتیبِ تخیل۔۔۔ایک تازہ ترین تخلیق
مجھے یہ یاد آتا ہے بہت ہی یاد آتا ہے
کہ جب تم اجنبی سے تھے
بہت ہی اجنبی سے تھے
نہیں تھا دور تک تیرا
کوئی نام و نشاں تب تو
مری آنکھیں جو رہتی تھیں
کہ پتھر کی سی ہیں آنکھیں
کہ میری سوچ بھی تب تھی
کہ سوچوں بھی تو کیا سوچوں
نہ منزل تھی کوئی اپنی نہ کوئی راستہ اپنا
کہ چلتے ہی تو رہنا ہے
یوں چلتے ہی چلے جانا
کہ چلتے چلتے دنیا سے
آخر ہے چلے جانا
حوادث جس طرف چاہیں مجھے بس کھینچ لیتے تھے
مری کشتی کہ جیسے ان ہواؤں کے کرم پر تھی
نہیں معلوم تھا مجھ کو
نہی معلوم ہوتا تھا
کہ آیا ہوں کدھر سے میں
مجھے جانا کدھر کو ہے
عجب سا ماجرا تھا اب
جو میں ہوں سوچتا وہ سب
کہ کیسا وقت تھا میرا
نہیں تھا وقت وہ میرا
نہیں ہے وقت یہ میرا
یہی اک سلسلہ تھا تب
وہی اک سلسلہ ہے اب
کہ وقت نے گزرنا تھا
گزرنا ہی گزرنا ہے
گزر کے ختم ہو جانا
بنا دیکھے بنا سمجھے
بنا غم کے کوئی موسم
دکھایا ہے مجھے اس نے
مسرت کا کوئی لمحہ
نہ خوشیوں کی کوئی باتیں
توازن بھی مرا مرہون تھا کچھ یوں حوادث کا
برابر ہے مرا رہنا
نہ رہنا ایسی دنیا میں
ہوا کا جھونکا جو آیا ہے اب اک تیری دنیا سے
معطر تھا
مزین تھا
تری خوشبو
مہک تیری
نے مجھ کو کر دیا گھائل
مجھے محسوس ہوتی تھی
مجھے اچھی سی لگتی تھی
مجھے اپنی سی لگتی تھی
مرے اصرار کرنے سے
ترا اقرار کرنا وہ
بدل ڈالی تھی جس نے زندگی میری ہی ساری وہ
مری مایوس دنیا میں اندھیروں کی سیاہی میں
شمع کی روشنی بن کے
اجالا کر دیا مجھ میں
محبت تیری نے مجھ کو
امیدوں کے جہاں میں لا کھڑا تھا کر دیا مجھ کو
تھا تو نے دے دیا مجھکو
نشاں اک میری منزل کا
یقیں میرا بھی پختہ تھا
دلایا تم نے جو مجھ کو
کمایا تم سے جو میں نے
اداؤں سے تری میں نے
ترے وعدے تری قسمیں
تری باتیں محبت کی
وفاؤں کی
ہمیشہ ساتھ رہنے کی
مل کے ساتھ رہنے کی
محبت میں ہی لٹنے کی
محبت میں لٹانے کی
مجھے تو نے بتایا تھا
کہیں موجود ہوں میں بھی
کہیں پر میں بھی رہتا ہوں
کہ میں بھی سانس لیتا ہوں
کہ میں بھی سوچتا ہوں کچھ
کہ مجھ کو سوچنا ہے کچھ
بہت رنگین دنیا تھی
تری آغوش میں رہ کر
جو میں مدہوش رہتا تھا
میں دنیا سے الگ ہو کر
تجھی سے گفتگو کرتا
تو پھر یہ ماجرا تھا کیا
اچانک کیا ہوا تھا پھر
کہ سورج تیری چاہت کا
فلک سے چھپ گیا جیسے
کہ جیسے تھا نہیں کبھی
مجھے اب لگتا ہے ایسے
کہ جیسے روشنی میں تو
مجھے اک سایہ سا بن کے
مرے تو ساتھ چلتا ہو
کہ جیسے رات پڑتے ہی
اندھیرے میں کہیں پر تو
نے مجھ کو چھوڑ دیا ہو
فقط یہ وقت تھا تیرا
گزارا تم نے تھا جو یوں
فقط یہ جھوٹ تھا سب ہی
تخیل پر مرے پھر سے
جو پھر سے برف پڑتی ہو
اندھیرا پھر سے منہ کھولے
مجھے کھانے کو حاضر ہے
تو میں اب پھر وہیں ہوں اب
تماشا اپنا کرتا ہوں
تماشا اپنا کرتا ہوں
ہمایوں

0
54