| ترا اقرار کرنا بھی تو کچھ انکار جیسا ہے |
| یہ کیسا پیار ہے تیرا جو کچھ کچھ پیار جیسا ہے |
| ترے ملنے سے بھی تجھ سے مرا ملنا نہیں ہوتا |
| کہ تیرا بولنا مجھ سے عدم گفتار جیسا ہے |
| کوئی تو نام دے اس کو تعلق جو بنایا ہے |
| کہ ہے یہ رسمِ دنیا یا کسی بیوپار جیسا ہے |
| نہ ہو تو ساتھ میرے تو جہاں کس کام کا میرے |
| ہر ایسا جیتنا میرا تو بھی اک ہار جیسا ہے |
| تو آ کے پوچھ لے اک بار احوالِ مریضاں بھی |
| تو ہے جس کا مکیں وہ دل مرا بیمار جیسا ہے |
| جو تجھ کو چوم لوں تو پھر بھی مجھ کو زخم لگتے ہیں |
| یہ کیسا پھول ہے تو بھی جو کچھ کچھ خار جیسا ہے |
| جو آنکھوں میں مری سرخی تجھے محسوس ہوتی ہے |
| نشہ یادوں کا تیری ہے جو اک خمار جیسا ہے |
| سمجھ آتا نہیں اترانا وہ ترکِ وفا کر کے |
| تو جس پر فخر کرتا ہے مجھے وہ عار جیسا ہے |
| کرشمہ ہے تخیل کا کہ پہنچا ایسے درجے پر |
| کھڑا ہوں اس کنارے پر تصور پار جیسا ہے |
| کہ اب تو اپنی سوچوں پر مجھے کچھ سوچنا ہو گا |
| کہ ہے وہ دشمنِ جاں مجھ کو لگتا یار جیسا ہے |
| کوئی وقعت ہمایوں تیرے جذبوں کی نہیں ہے اب |
| ترا چلنا وفاؤں پر یونہی بیکار جیسا ہے |
| ہمایوں |
معلومات