ترکِ تعلق
غمِ ہستی سے کنارہ کر لوں
اب خوشی پر میں گزارا کر لوں
ترا غم تیرا پتہ دے مجھ کو
غم کو رخصت کا اشارہ کر لوں
بن ترے دنیا بھی کیا دِکھتی ہو گی
بن ترے دنیا کا نظارہ کر لوں
میرا ماضی کہ تُو موجود نہ تھا
فکرِ ماضی میں دوبارہ کر لوں
تری تعریف کروں آج بھی میں
اپنی تحقیر گوارہ کر لوں
ہو گیا مجھ سے ہے انجانے میں
کب یہ چاہا تھا خسارہ کر لوں
ہمایوںؔ

0
143