| تم سے ملنا کبھی اتنا بھی تو دشوار نہ تھا |
| جیسا اب ہوں کبھی اتنا بھی تو بیمار نہ تھا |
| میرے ایام گزرتے ہیں اذیت میں ہی کیوں |
| زندگی سے کبھی ایسے بھی تو دوچار نہ تھا |
| کیسے فرقت کے شب و روز جو گم ہو گئے سب |
| اس جدائی کے لئے میں بھی تو تیار نہ تھا |
| اب تو خود کا بھی مجھے لگ رہا ہے بوجھ بہت |
| میری دنیا سے میں اتنا بھی تو بیزار نہ تھا |
| منزلیں تم نے بتائی ہیں جنوں کی تو مجھے |
| مجھ کو مستی سے کبھی بھی تو سروکار نہ تھا |
| ہمایوں |
معلومات