میں قلب و جاں کا اب تو قرار چاہتا ہوں |
میں خودستائشی سے فرار چاہتا ہوں |
یہ گردشیں ہیں خود کے جو دائروں میں سب |
خیال پر میں اپنے نکھار چاہتا ہوں |
تُو اور میں کی باتیں عجیب تر ہیں یہ سب |
میں تُو ہی تُو کا تو اب شرار چاہتا ہوں |
اسیرِ بےجاں بت کا تو صدیوں سے رہا ہوں |
میں زندگی کی اب تو بہار چاہتا ہوں |
میں ڈھونڈتا کیوں خود کو جو کوچہ و قریہ |
میں کھوج کی اب کشتی کو پار چاہتا ہوں |
ہمایوں |
معلومات