میں قلب و جاں کا اب تو قرار چاہتا ہوں
میں خودستائشی سے فرار چاہتا ہوں
یہ گردشیں ہیں خود کے جو دائروں میں سب
خیال پر میں اپنے نکھار چاہتا ہوں
تُو اور میں کی باتیں عجیب تر ہیں یہ سب
میں تُو ہی تُو کا تو اب شرار چاہتا ہوں
اسیرِ بےجاں بت کا تو صدیوں سے رہا ہوں
میں زندگی کی اب تو بہار چاہتا ہوں
میں ڈھونڈتا کیوں خود کو جو کوچہ و قریہ
میں کھوج کی اب کشتی کو پار چاہتا ہوں
ہمایوں

0
78