| حادثوں کی دنیا میں حادثہ نہیں کوئی |
| ساتھ ہے ترا تو پھر سانحہ نہیں کوئی |
| شام ہو سویرا ہو رات ہو اندھیرا ہو |
| موسموں کا ہم کو تو مسئلہ نہیں کوئی |
| ذائقہ کوئی بھی ہو شربتی سا لگتا ہے |
| تو نہ ہو مری جاں تو ذائقہ نہیں کوئی |
| قربتوں کی جنت میں مشکلیں نہیں ہوتیں |
| بن ترے تو جینے کا آسرا نہیں کوئی |
| زندگی میں جینے کو تجھ سے ساری ترتیبیں |
| ایک کلیہ ہے تو اور قاعدہ نہیں کوئی |
| خود سے ملنے کی راہیں تجھ سے ہی نکلتی ہیں |
| بن ترے تو خود سے بھی رابطہ نہیں کوئی |
| تیری نظروں سے دیکھا زندگی کے رنگوں کو |
| زندگی کا تیرے بن ضابطہ نہیں کوئی |
| ربط تیرا مجھ سے تو روح کا یقیں کا ہے |
| تیرے پیار پر مجھ کو شائبہ نہیں کوئی |
| جس ورق پہ لکھا ہے تیرا نام ہم نے اب |
| اسمیں دائیں بائیں تو حاشیہ نہیں کوئی |
| سوچتا ہوں تجھ کو جب خوب سوچتا ہوں میں |
| تیری سوچوں سے آگے سلسلہ نہیں کوئی |
| چھوڑ کر یوں جانے کو حوصلہ جو کہتے ہو |
| حوصلہ تو پھر ایسا حوصلہ نہیں کوئی |
| رہ رہی ہے صدیوں سے صدیوں اسکو رہنا ہے |
| زندگی تو پانی کا بلبلہ نہیں کوئی |
| منزلوں کو پانے کا تو ہی واسطہ میرا |
| تیرے بن ہمایوں کا راستہ نہیں کوئی |
| ہمایوں |
معلومات