ڈھل گئے ہیں ماہ و سال دیکھتے ہی دیکھتے
کیا ہوا جاہ و جلال دیکھتے ہی دیکھتے
ہے نہیں سوزِ بیاں نہ ہی زباں کی چاشنی
اب رہا وہ سر نہ تال دیکھتے ہی دیکھتے
میں رہا ہوں بے مراد زندگی کی دوڑ میں
رہ گیا ماضی نہ حال دیکھتے ہی دیکھتے
ورطہِ حیرت ہوں میں کہ مٹ گئی ہیں رونقیں
شہر ہے اب خال خال دیکھتے ہی دیکھتے
جستجو کی تھی وہ بات پوچھنا ہی پوچھنا
ختم ہیں سارے سوال دیکھتے ہی دیکھتے
حسن ادا اور وہ ناز دبدبے کی منزلیں
گم ہوا تیرا جمال دیکھتے ہی دیکھتے
اب سمجھ آئی یہ بات کھُل گیا یہ راز بھی
ہر ادا رُوبہ زوال دیکھتے ہی دیکھتے
تیری ہمایوں جو ذات محفلوں کا رنگ تھی
تُو بنا اب اک وبال دیکھتے ہی دیکھتے
ہمایوں

0
16