| تبدیل ہوا تیرا یہ اندازِ تخاطب |
| باتیں جو کرے مجھ سے نہیں تھا میں مخاطب |
| اس طرح سے جو تو نے نبھایا وفا کا عہد |
| جو تیر بھی نکلا تو وہ آیا مری جانب |
| اس بار تو لگتا ہے ترا چھوڑنا مجھ کو |
| اس بار تو بدلے سے ہیں ہم سے یہ کواکب |
| ملتے رہے ہیں ہجر کے دکھ مجھ کو مسلسل |
| اس بار نہ لکھنا مری تقدیر میں کاتب |
| کب چھوڑ سکا میں تری یادوں کا یہ دامن |
| کرتی رہی ہیں زیست میں میرا یہ تعاقب |
| میں نے تو لٹایا ہے مرے پاس جو بھی تھا |
| ملتے رہے ہیں مجھ کو تو سب لوگ ہی غاصب |
| کس نے ہے سکھایا جو رویہ ہے یہ تیرا |
| تیرا جو یہ ناصح ہے یہ تیرا جو ہے راہب |
| لگتا ہے ہمایوں کو بھی یوں ترک کرو گے |
| رہتا نہیں جو تیری دعا میں تو وہ بھی اب |
| ہمایوں |
معلومات