شاید وہ میرے شوق کی شدت نہیں رہی
جو اس کو اب وہ ہم سے محبت نہیں رہی
میرا ہی وسوسہ تھا جو اب سچ سا ہو گیا
اس کی اداؤں میں تو وہ چاہت نہیں رہی
میں ڈوب چکا جو ترے دریا میں اس قدر
ساحل کو دیکھنے کی تو جرات نہیں رہی
یوں چھوڑ کر نہ جانا بھلانا نہیں مجھے
یہ بات کرنے کی مجھے ہمت نہیں رہی
کس طرح سےمیں شوق کی تکمیل اب کروں
چاہت مری کی اب تو ضرورت نہیں رہی
ہمایوں

0
56