شاید وہ میرے شوق کی شدت نہیں رہی |
جو اس کو اب وہ ہم سے محبت نہیں رہی |
میرا ہی وسوسہ تھا جو اب سچ سا ہو گیا |
اس کی اداؤں میں تو وہ چاہت نہیں رہی |
میں ڈوب چکا جو ترے دریا میں اس قدر |
ساحل کو دیکھنے کی تو جرات نہیں رہی |
یوں چھوڑ کر نہ جانا بھلانا نہیں مجھے |
یہ بات کرنے کی مجھے ہمت نہیں رہی |
کس طرح سےمیں شوق کی تکمیل اب کروں |
چاہت مری کی اب تو ضرورت نہیں رہی |
ہمایوں |
معلومات