ہر سمت کھو چکی ہے نظر کچھ نہیں آتا
اب تیری محبت کا اثر کچھ نہیں آتا
پھر تیرا یہ احساس ہوا برف کی مانند
جو بجھ چکی ہے آگ شرر کچھ نہیں آتا
ہر چیز پہیلی ہے کہ دھوکہ ہے یہاں پر
اب میری سمجھ میں تو ادھر کچھ نہیں آتا
اک شورشِ نادیدہ بپا رہتی ہے دل میں
باہر سے جو دیکھوں تو نظر کچھ نہیں آتا
اک شور سا رہتا ہے دلائل کا یہاں پر
کیوں میری سماعت میں مگر کچھ نہیں آتا
ہر روز جو امید کا میں دیپ جلاؤں
ہر شام اداسی ہے جو گھر کچھ نہیں آتا
اس زیست کا ہر لمحہ جو گزرا ہے ہمایوں
کیوں لوٹ کے اب اس کا ثمر کچھ نہیں آتا
ہمایوں

0
19