شبِ غم ہے کہ سویرا نہیں ہوتا |
وہ جو میرا ہے وہ میرا نہیں ہوتا |
یہ محبت کے چراغوں کے سبب ہے |
وہ جو یادوں پہ اندھیرا نہیں ہوتا |
یہ تو بسنے کا جنوں ہے ترے اندر |
میرا من میں جو بسیرا نہیں ہوتا |
ایسے بدلے ہیں ترے نقش کہ اب تو |
وہ ترا چہرہ بھی تیرا نہیں ہوتا |
تو جو رکھتا ہے یہ مرہم سا لبوں سے |
یہ مرا زخم جو گہرا نہیں ہوتا |
اب بھٹکنے کو اسے چھوڑ دیا ہے |
مجھ سے اب سوچ پہ پہرہ نہیں ہوتا |
تھیں ہمایوں یہ ترے وصل کی یادیں |
ورنہ ہر دور سنہرا نہیں ہوتا |
ہمایوں |
معلومات