تم سے جو بات اب نہیں ہوتی
صبح کیا رات اب نہیں ہوتی
تیرا ملنا کبھی قیامت تھا
وہ ملاقات اب نہیں ہوتی
تُو تو ملتا تھا جتنا میں چاہوں
ویسی بہتات اب نہیں ہوتی
دل میں شہنائیاں جو بجتی تھیں
ویسی بارات اب نہیں ہوتی
جس سے کھِلتی ہوں کونپلیں من میں
ویسی برسات اب نہیں ہوتی
وہ جو رکتا تھا تیرے بن یہ دل
دل کو وہ مات اب نہیں ہوتی
تیری جو یاد لے کے چلتا تھا
وہ مرے ساتھ اب نہیں ہوتی
اے ہمایوں تو اب کے باز آ جا
یہ خرافات اب نہیں ہوتی
ہمایوں

0
4