| دے رہا ہے کون کس کو یہ سزا اندر مرے |
| ایک شورِ بدتمیزی ہے بپا اندر مرے |
| دل یہ چاہے ڈال دوں میں پشت پر تہذیب کو |
| سن لوں آئے جو بغاوت کی صدا اندر مرے |
| وار پیچھے سے کسی نے کر دیا ہو گا کہ جو |
| شخص ایسے ہی نہیں بیٹھا خفا اندر مرے |
| جانے کتنی لہریں اٹھیں ڈھلنے کو طوفان میں |
| زور سے جو چل رہی ہے یہ ہوا اندر مرے |
| تم نے بھی تو سانس لینا ہے اسی کے بیچ میں |
| بن رہی ہے نفرتوں کی جو فضا اندر مرے |
| کچھ نہ کچھ تو بولے گی اور کچھ نتیجہ نکلے گا |
| جو مچلتی رہتی ہے وہ اک انا اندر مرے |
| ہر جگہ برپا جو کر دے ایک طوفانِ جنوں |
| ایسی لہریں اے خدا اب تو اٹھا اندر مرے |
| بھر دے میرے دل کو ایسے حوصلے سے یا خدا |
| مل نہ پائے کچھ جگہ تیرے سوا اندر مرے |
| مہربانوں نے دکھائی مہربانی ٹوٹ کر |
| نفرتوں کی پھیلی ہے جو اک وبا اندر مرے |
| مجھ کو رہنا تھا اگر ان بے وفا سے لوگوں میں |
| کیوں ہے ڈالی اے خدا تو نے وفا اندر مرے |
| اب کھڑا ہے صبر بھی خود ظلم کی دہلیز پر |
| اب بغاوت ڈال دے تو اے خدا اندر مرے |
| دیکھتا ہوں اے ہمایوں حوصلہ تیرا کمال |
| تجھ کو دیکھوں تو ہے بڑھتا حوصلہ اندر مرے |
| ہمایوں |
معلومات