یہ تری محبتیں
فرقتیں یہ قربتیں
وصل کی وہ راحتیں
وہ جنوں کی ساعتیں
وہ تری حرارتیں
تیری وہ حلاوتیں
جم کے بیٹھنا ترا
پہلو میں سکون سے
سوچ تھی نہ غم ہی تھا
تجھ میں مَیں وہ مجھ میں تُو
دیکھتے تھے شوق سے
آئینے کی ہی طرح
اپنا عکس دیکھتے
ایک دوسرے میں ہم
اک سکون تھا جبھی
بس قرار تھا جبھی
اک جہاں تھا میرے پاس
جس جہاں کی رونقیں
وجود تیرے سے ہی تھیں
وہ جہاں بھرا ہوا
تھا تیرے ہی وجود سے
تیری ہی مہک تھی جو
میرے ارد گرد تھی
وہ ترا گفتار جو
گنگناتا تھا کبھی
مست جھرنے کی طرح
میری ان سماعتوں
میں تھا رس سا گھولتا
تھا جہاں عجیب سا
میرے ارد گرد کہ
اس سخن کو دیکھتا
مسندِ عروج پر
بھول جاتا تھا سبھی
رتجگوں کی سوزشیں
صاف ہو جاتی تھی
ان غموں کی دھول بھی
جو کمائے تھے جبھی
تجھ سے پہلے دور میں
تم جو وعدہ کرتے تھے
ہم کو پکا لگتا تھا
ہم کو سچا لگتا تھا
اعتبار تم پہ تھا
خود پہ جو نہ تھا کبھی
سب مجھے لگے ہیں اب
اک سراب کی طرح
رات کے کسی پہر
الجھے خواب کی طرح
یاس کی ہے داستاں
آس کا نشاں نہیں
فکر بھی نہیں رہی
رنج بھی نہیں ہے اب
جھوٹ تھا فریب تھا
کچھ نہ تھا وہ کچھ نہ تھا
ہمایوں

0
72