دعائیں بت کہاں سنتے صدائیں بت کہاں سنتے
ہیں پتھر سے بنے سارے یہ آہیں بت کہاں سنتے
فقط یہ خود کو بہلانے کو ہے یہ کام بس اچھا
وگرنہ علم ہے ہم کو ندائیں بت کہاں سنتے
فقط یہ ظلم ہے جو خود پہ ہے ہم نے روا رکھا
یہ ہے اک خود کلامی سی وفائیں بت کہاں سنتے
مرے اغیار نےجو مجھ کو سمجھایا ازل سے تھا
جتن تُو لاکھ کر لے پر ادائیں بت کہاں سنتے
تری قربت میں ہم کو اک سکونِ دل تو ملتا تھا
مگر جو ہجر کا قصہ بتائیں بت کہاں سنتے
تخیل میں مرے جو آگ تو نے اب لگائی ہے
کہ آئیں جتنی بھی کالی گھٹائیں بت کہاں سنتے
کہ ہے مرہون میرا جینا بس جو تیری قربت کا
مگر میں لاکھ دوں تجھ کو صدائیں بت کہاں سنتے
تری یادیں تری سوچیں مجھے تکلیف دیتی ہیں
قیامت مجھ میں رہ کے یہ مچائیں بت کہاں سنتے
اذیت کو چھپا لیں ہم کہیں اس دل کے خانوں میں
ہمایوں کی یہ فریادیں سزائیں بت کہاں سنتے
ہمایوں

0
24